عصری اداروں میں حفظ قرآن؛ حقیقت یا فریب ؟

مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی

حفظِ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ قرآن وہ واحد آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کا وعدہ خود خالقِ کائنات نے فرمایا:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [الحجر: ٩]
یعنی: ’’ہم ہی نے یہ ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
مفسرین کے مطابق اس وعدے کی عملی صورت دنیا بھر میں پائے جانے والے حفاظ ہیں، جو ہر دور میں تجوید کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے آ رہے ہیں۔
قرآن مجید کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اہلِ علم کے سینوں میں محفوظ ہے:
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ [العنكبوت: ٤٩]
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
يقال لصاحب القرآن: اقرأ وارتق، ورتل كما كنت ترتل في الدنيا، فإن منزلتك عند آخر آية تقرؤها [الترمذي]یعنی: ’’قرآن کے صاحب سے کہا جائے گا: پڑھتا جا اور جنت کی منزلیں چڑھتا جا…‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
من قرأ القرآن وحفظه، أدخله الله الجنة، وشفّعه في عشرة من أهل بيته [ابن ماجہ]
اسی طرح فرمایا:
يُلبس والداه تاجًا يوم القيامة، ضوؤه أحسن من ضوء الشمس [مسند احمد]
یہ فضائل لاکھوں والدین کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو حافظِ قرآن بنائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس عظیم عمل کے لیے کس ادارے، نظام اور ماحول کا انتخاب کرتے ہیں؟
کیا محض کسی اسکول کی "حفظ شاخ” یا ایک معمولی درجے کے مدرسے میں قرآن یاد کروانا کافی ہے؟
کیا وہاں قرآن کے ساتھ ادب، تجوید، اور دہرائی کا مناسب انتظام ہے؟
حافظِ قرآن بنانا محض الفاظ رٹوانا نہیں بلکہ قرآن کی روشنی کو نسلوں کے دل و دماغ میں اُتارنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ادارہ قرآن کے تقدس، تجوید، اور کردار سازی کے تقاضے پورے کرے۔
آج دینی مدارس میں کئی جگہ عصری مضامین شامل کیے جا رہے ہیں تاکہ طلبہ متوازن کردار ادا کر سکیں۔ مگر جب بعض اسکولز میں "حفظِ قرآن” محض ایک تعلیمی پیکیج یا والدین کو خوش کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے، تو یہ ایک روحانی غفلت بن جاتی ہے۔
بچوں کو صرف سبق رٹوایا جاتا ہے، نہ دہرائی کا اہتمام ہوتا ہے، نہ تجوید و عمل کی فکر۔ نتیجتاً بچہ قرآن کو بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جو قرآن پڑھے پھر بھلا دے، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اُس کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوں گے۔ [سنن ابی داؤد]
نیز فرمایا:قرآن کا حافظ اگر پابندی سے دہرائے تو محفوظ رہے، ورنہ بھول جائے گا۔ [بخاری]
امام ابن حجر الہیتمیؒ فرماتے ہیں:
قرآن کو بھول جانا کبیرہ گناہ ہے، اگرچہ قصداً نہ ہو، کیونکہ یہ اللہ کے کلام کے ساتھ تساہل کی علامت ہے۔
حفظِ قرآن کے بعد اس کی حفاظت، دہرائی، عمل، اور قلبی تعلق برقرار رکھنا واجب ہے۔
بصورتِ دیگر، قرآن "روح کے بغیر جسم” بن کر رہ جائے گا۔ بچوں کے اندر قرآن محفوظ نہ رہے گا، نہ تجوید ہوگی، نہ عمل، نہ محبت۔
قرآن کوئی تجرباتی مضمون یا تشہیری سرگرمی نہیں، بلکہ یہ ایک امانت ہے جسے صرف اہل، دیندار اور باعمل افراد کے سپرد کیا جانا چاہیے۔
اگر اسکول میں یہ اہلیت نہ ہو تو شعبہ حفظ بند کر دینا بہتر ہے۔ وقتی نقصان بہتر ہے بنسبت اس کے کہ قرآن کے ساتھ ظلم کرکے آخرت خراب کی جائے۔
اگر شعبہ جاری رکھنا ناگزیر ہو تو یہ شرائط لازم ہوں:
اسکول انتظامیہ کے لیے:
1. شعبہ حفظ صرف علمائے کرام اور تجربہ کار حفاظ کے سپرد کیا جائے۔2. بچوں پر غیر فطری بوجھ نہ ڈالا جائے۔3. اساتذہ کو عددی اہداف سے آزاد رکھا جائے۔4. حفظ کی مدت کو لچکدار رکھا جائے۔5. تربیت، اخلاق، نماز، اور سیرت کی تعلیم دی جائے۔
6 شعبۂ حفظ کو مارکیٹنگ کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
7. تجوید، ادب اور عمل کی بھی تعلیم ہو۔
8. اساتذہ مخلص، باعمل اور تربیت یافتہ ہوں۔
9. معیار کو رفتار پر فوقیت دی جائے
10جزوی حفظ کرنے والے بچوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔
والدین کے لیے:
1. ممکن ہو تو بچے کو مدرسے میں حفظ کے لیے داخل کریں۔
2. مجبوری ہو تو دینی ماحول ضرور فراہم کریں۔
3. اسکول میں حفظ کی صورت میں نظام کی شرعی نگرانی یقینی بنائیں۔
4. گھر کا ماحول قرآن کے مطابق ہو۔
5. حفظ کو جذبہ بنائیں، بوجھ نہ بنائیں۔
6. غیر فطری توقعات نہ رکھیں۔
7. تربیت میں خود بھی شریک ہوں۔
خلاصۂ کلام:
اس وقت اسکولوں کا نیا تعلیمی سال شروع ہونے والا ہے۔ والدین اور اسکول انتظامیہ دونوں سنجیدگی سے شعبۂ حفظ کے حوالے سے غور کریں۔
بہت سے اسکولوں میں دینیات کے شعبے موجود ہیں، جو قابلِ قدر ہیں، مگر یہاں بات صرف شعبہ حفظِ قرآن کی ہو رہی ہے۔
یقیناً وہ اسکول جو دینی شعور رکھنے والوں کی نگرانی میں چلتے ہیں، وہ اُن غیر مسلم اداروں سے بدرجہا بہتر ہیں، جہاں تعلیم کے نام پر بچوں کی فکری و اعتقادی بنیادوں کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یاد رکھیے:
حفظِ قرآن ایک نعمت، امانت اور ذمہ داری ہے۔ اس کی ادائیگی صرف الفاظ یاد کروانے سے نہیں، بلکہ نیت، ماحول، تربیت، اور محنت سے ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اسے محض اعزاز یا تشہیر کا ذریعہ بنایا، تو یہ خیانت ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو نام کے حافظ نہیں بلکہ قرآن کے سچے وارث بنائیں۔
ززز

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں

تازہ ترین خبریں

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

وادی کے جھیلوں کی چمک، اور فضاؤں کی مہک آپ کو بلا رہی ہے

جنگ نیوز ڈیسک سرینگر//جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی ایڈیشنل...

تازہ ترین خبریں

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

وادی کے جھیلوں کی چمک، اور فضاؤں کی مہک آپ کو بلا رہی ہے

جنگ نیوز ڈیسک سرینگر//جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی ایڈیشنل...

عصری اداروں میں حفظ قرآن؛ حقیقت یا فریب ؟

مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی

حفظِ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ قرآن وہ واحد آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کا وعدہ خود خالقِ کائنات نے فرمایا:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [الحجر: ٩]
یعنی: ’’ہم ہی نے یہ ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
مفسرین کے مطابق اس وعدے کی عملی صورت دنیا بھر میں پائے جانے والے حفاظ ہیں، جو ہر دور میں تجوید کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے آ رہے ہیں۔
قرآن مجید کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اہلِ علم کے سینوں میں محفوظ ہے:
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ [العنكبوت: ٤٩]
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
يقال لصاحب القرآن: اقرأ وارتق، ورتل كما كنت ترتل في الدنيا، فإن منزلتك عند آخر آية تقرؤها [الترمذي]یعنی: ’’قرآن کے صاحب سے کہا جائے گا: پڑھتا جا اور جنت کی منزلیں چڑھتا جا…‘‘
ایک اور حدیث میں ہے:
من قرأ القرآن وحفظه، أدخله الله الجنة، وشفّعه في عشرة من أهل بيته [ابن ماجہ]
اسی طرح فرمایا:
يُلبس والداه تاجًا يوم القيامة، ضوؤه أحسن من ضوء الشمس [مسند احمد]
یہ فضائل لاکھوں والدین کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو حافظِ قرآن بنائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس عظیم عمل کے لیے کس ادارے، نظام اور ماحول کا انتخاب کرتے ہیں؟
کیا محض کسی اسکول کی "حفظ شاخ” یا ایک معمولی درجے کے مدرسے میں قرآن یاد کروانا کافی ہے؟
کیا وہاں قرآن کے ساتھ ادب، تجوید، اور دہرائی کا مناسب انتظام ہے؟
حافظِ قرآن بنانا محض الفاظ رٹوانا نہیں بلکہ قرآن کی روشنی کو نسلوں کے دل و دماغ میں اُتارنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ادارہ قرآن کے تقدس، تجوید، اور کردار سازی کے تقاضے پورے کرے۔
آج دینی مدارس میں کئی جگہ عصری مضامین شامل کیے جا رہے ہیں تاکہ طلبہ متوازن کردار ادا کر سکیں۔ مگر جب بعض اسکولز میں "حفظِ قرآن” محض ایک تعلیمی پیکیج یا والدین کو خوش کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے، تو یہ ایک روحانی غفلت بن جاتی ہے۔
بچوں کو صرف سبق رٹوایا جاتا ہے، نہ دہرائی کا اہتمام ہوتا ہے، نہ تجوید و عمل کی فکر۔ نتیجتاً بچہ قرآن کو بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جو قرآن پڑھے پھر بھلا دے، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اُس کے ہاتھ پاؤں کٹے ہوں گے۔ [سنن ابی داؤد]
نیز فرمایا:قرآن کا حافظ اگر پابندی سے دہرائے تو محفوظ رہے، ورنہ بھول جائے گا۔ [بخاری]
امام ابن حجر الہیتمیؒ فرماتے ہیں:
قرآن کو بھول جانا کبیرہ گناہ ہے، اگرچہ قصداً نہ ہو، کیونکہ یہ اللہ کے کلام کے ساتھ تساہل کی علامت ہے۔
حفظِ قرآن کے بعد اس کی حفاظت، دہرائی، عمل، اور قلبی تعلق برقرار رکھنا واجب ہے۔
بصورتِ دیگر، قرآن "روح کے بغیر جسم” بن کر رہ جائے گا۔ بچوں کے اندر قرآن محفوظ نہ رہے گا، نہ تجوید ہوگی، نہ عمل، نہ محبت۔
قرآن کوئی تجرباتی مضمون یا تشہیری سرگرمی نہیں، بلکہ یہ ایک امانت ہے جسے صرف اہل، دیندار اور باعمل افراد کے سپرد کیا جانا چاہیے۔
اگر اسکول میں یہ اہلیت نہ ہو تو شعبہ حفظ بند کر دینا بہتر ہے۔ وقتی نقصان بہتر ہے بنسبت اس کے کہ قرآن کے ساتھ ظلم کرکے آخرت خراب کی جائے۔
اگر شعبہ جاری رکھنا ناگزیر ہو تو یہ شرائط لازم ہوں:
اسکول انتظامیہ کے لیے:
1. شعبہ حفظ صرف علمائے کرام اور تجربہ کار حفاظ کے سپرد کیا جائے۔2. بچوں پر غیر فطری بوجھ نہ ڈالا جائے۔3. اساتذہ کو عددی اہداف سے آزاد رکھا جائے۔4. حفظ کی مدت کو لچکدار رکھا جائے۔5. تربیت، اخلاق، نماز، اور سیرت کی تعلیم دی جائے۔
6 شعبۂ حفظ کو مارکیٹنگ کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
7. تجوید، ادب اور عمل کی بھی تعلیم ہو۔
8. اساتذہ مخلص، باعمل اور تربیت یافتہ ہوں۔
9. معیار کو رفتار پر فوقیت دی جائے
10جزوی حفظ کرنے والے بچوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔
والدین کے لیے:
1. ممکن ہو تو بچے کو مدرسے میں حفظ کے لیے داخل کریں۔
2. مجبوری ہو تو دینی ماحول ضرور فراہم کریں۔
3. اسکول میں حفظ کی صورت میں نظام کی شرعی نگرانی یقینی بنائیں۔
4. گھر کا ماحول قرآن کے مطابق ہو۔
5. حفظ کو جذبہ بنائیں، بوجھ نہ بنائیں۔
6. غیر فطری توقعات نہ رکھیں۔
7. تربیت میں خود بھی شریک ہوں۔
خلاصۂ کلام:
اس وقت اسکولوں کا نیا تعلیمی سال شروع ہونے والا ہے۔ والدین اور اسکول انتظامیہ دونوں سنجیدگی سے شعبۂ حفظ کے حوالے سے غور کریں۔
بہت سے اسکولوں میں دینیات کے شعبے موجود ہیں، جو قابلِ قدر ہیں، مگر یہاں بات صرف شعبہ حفظِ قرآن کی ہو رہی ہے۔
یقیناً وہ اسکول جو دینی شعور رکھنے والوں کی نگرانی میں چلتے ہیں، وہ اُن غیر مسلم اداروں سے بدرجہا بہتر ہیں، جہاں تعلیم کے نام پر بچوں کی فکری و اعتقادی بنیادوں کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یاد رکھیے:
حفظِ قرآن ایک نعمت، امانت اور ذمہ داری ہے۔ اس کی ادائیگی صرف الفاظ یاد کروانے سے نہیں، بلکہ نیت، ماحول، تربیت، اور محنت سے ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اسے محض اعزاز یا تشہیر کا ذریعہ بنایا، تو یہ خیانت ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ بچوں کو نام کے حافظ نہیں بلکہ قرآن کے سچے وارث بنائیں۔
ززز

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں