ہر سال 20 مئی کو دنیا بھر میں ورلڈ بی ڈے منایا جاتا ہے تاکہ شہد کی مکھیوں کے ماحول، زراعت اور حیاتیاتی تنوع کے لیے کلیدی کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔ یہ مکھیاں خوراک کی عالمی سلامتی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، مگر افسوس کہ کیمیائی ادویات، موسمیاتی تبدیلی، بیماریوں اور قدرتی رہائش کے خاتمے کے باعث ان کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
ایسے میں کشمیر قدرتی طور پر ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ سرسبز وادی، خوشبودار پھولوں سے بھرپور چراگاہیں اور معتدل آب و ہوا، یہ سب کچھ مکھی پالنے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ مگر افسوس کہ آج بھی کشمیر میں شہد کی مکھیوں کی پرورش کو ایک مکمل روزگار کے طور پر اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ World Bee Day ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی پرورش نہ صرف ماحول کے لیے مفید ہے بلکہ نوجوانوں کے لیے ایک باعزت اور نفع بخش روزگار بھی ہو سکتا ہے۔
کشمیر جیسے علاقے میں جہاں بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے، شہد کی مکھیوں کی پرورش ایک کم لاگت اور منافع بخش کاروبار بن سکتی ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ زمین یا سرمایہ درکار نہیں، اور نوجوان اپنی تعلیم یا دیگر پیشوں کے ساتھ اس کو بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ کشمیر میں تیار ہونے والا خالص اور قدرتی شہد عالمی مارکیٹ میں ایک اعلیٰ معیار کی پہچان بنا سکتا ہے۔
اگر نوجوانوں کو تھوڑی تربیت اور ابتدائی مدد فراہم کی جائے—جو کہ مختلف سرکاری اسکیموں اور زرعی اداروں کے ذریعے ممکن ہے—تو وہ نہ صرف اپنے لیے روزگار پیدا کر سکتے ہیں بلکہ دیہی معیشت اور ماحولیاتی تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خواتین اور نوجوانوں پر مشتمل خود کفیل مکھی پروری گروپس موم، قدرتی کاسمیٹکس اور شہد سے تیار مصنوعات کی مارکیٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
تاہم اس خواب کی تکمیل کے لیے صرف نوجوانوں کا جوش کافی نہیں، بلکہ پالیسی سازوں، اساتذہ، اور رہنماؤں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ تعلیمی اداروں میں شہد کی مکھیوں کی پرورش کو پیشہ ورانہ تعلیم میں شامل کرنا چاہیے، جبکہ پنچایت اور مقامی ادارے تربیتی کیمپ اور مالی معاونت کا انتظام کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایک سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ اس پیشے کو ایک باوقار، جدید اور مستقل ذریعہ معاش کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
شہد کی مکھیوں میں روزگار مضمر
شہد کی مکھیوں میں روزگار مضمر
ہر سال 20 مئی کو دنیا بھر میں ورلڈ بی ڈے منایا جاتا ہے تاکہ شہد کی مکھیوں کے ماحول، زراعت اور حیاتیاتی تنوع کے لیے کلیدی کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔ یہ مکھیاں خوراک کی عالمی سلامتی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، مگر افسوس کہ کیمیائی ادویات، موسمیاتی تبدیلی، بیماریوں اور قدرتی رہائش کے خاتمے کے باعث ان کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
ایسے میں کشمیر قدرتی طور پر ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ سرسبز وادی، خوشبودار پھولوں سے بھرپور چراگاہیں اور معتدل آب و ہوا، یہ سب کچھ مکھی پالنے کے لیے نہایت موزوں ہے۔ مگر افسوس کہ آج بھی کشمیر میں شہد کی مکھیوں کی پرورش کو ایک مکمل روزگار کے طور پر اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ World Bee Day ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی پرورش نہ صرف ماحول کے لیے مفید ہے بلکہ نوجوانوں کے لیے ایک باعزت اور نفع بخش روزگار بھی ہو سکتا ہے۔
کشمیر جیسے علاقے میں جہاں بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے، شہد کی مکھیوں کی پرورش ایک کم لاگت اور منافع بخش کاروبار بن سکتی ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ زمین یا سرمایہ درکار نہیں، اور نوجوان اپنی تعلیم یا دیگر پیشوں کے ساتھ اس کو بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ کشمیر میں تیار ہونے والا خالص اور قدرتی شہد عالمی مارکیٹ میں ایک اعلیٰ معیار کی پہچان بنا سکتا ہے۔
اگر نوجوانوں کو تھوڑی تربیت اور ابتدائی مدد فراہم کی جائے—جو کہ مختلف سرکاری اسکیموں اور زرعی اداروں کے ذریعے ممکن ہے—تو وہ نہ صرف اپنے لیے روزگار پیدا کر سکتے ہیں بلکہ دیہی معیشت اور ماحولیاتی تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خواتین اور نوجوانوں پر مشتمل خود کفیل مکھی پروری گروپس موم، قدرتی کاسمیٹکس اور شہد سے تیار مصنوعات کی مارکیٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
تاہم اس خواب کی تکمیل کے لیے صرف نوجوانوں کا جوش کافی نہیں، بلکہ پالیسی سازوں، اساتذہ، اور رہنماؤں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ تعلیمی اداروں میں شہد کی مکھیوں کی پرورش کو پیشہ ورانہ تعلیم میں شامل کرنا چاہیے، جبکہ پنچایت اور مقامی ادارے تربیتی کیمپ اور مالی معاونت کا انتظام کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایک سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ اس پیشے کو ایک باوقار، جدید اور مستقل ذریعہ معاش کے طور پر تسلیم کیا جائے۔