حضرت عثمان غنی(ر): عظمت و شان اور مناقب و محاسن

18 ذی الحجہ: یومِ وصال حضرت عثمان غنی (ر) پر خصوصی پیشکش

حافظ افتخار احمد

جامع القرآن، امیرالمومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، سابقینِ اولین میں چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والے وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں فیاضِ ازل سے سخاوت کا وہ فیض ملا جس نے آپ کی زندگی کو انفاق فی سبیل اللہ کی رہتی دنیا تک مثال بنا دیا، اور آپ خدمتِ اسلام میں سخاوت کی وجہ سے "سیدالاسخیاء” کہلائے۔ آپ کو فیضانِ نبوت سے دو نور عطا کیے جانے کا وہ شرف حاصل ہوا جس نے آپ کو "ذوالنورین” بنا دیا، اور یہ شرف اولادِ آدم میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ آپ "کامل الحیاء والایمان” کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہونے والے وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کی شرم و حیا پر ملائکہ بھی نازاں ہیں۔ اس عظیم المرتبت صحابیٔ رسول کی عظمت و شان اور مناقب و محاسن کے بیان میں کتبِ حدیث اور کتبِ سیرتِ صحابہ سے چند اقتباسات قارئین کی نذر ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
آپ کا نام ’’عثمان‘‘، کنیت ابو عمر، اور لقب ’’ذوالنورین‘‘ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: عثمان بن عفان، بن ابوالعاص، بن امیہ، بن عبد شمس، بن عبد مناف۔ یعنی پانچویں پشت میں آپ کا نسب رسول اللہ ﷺ کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ کی نانی ام حکیم، جو حضرت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں، وہ حضور ﷺ کے والدِ گرامی حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک ہی پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں۔ اس رشتے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی والدہ، حضور ﷺ کی پھوپھی کی بیٹی تھیں۔ آپ کی پیدائش عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۱۸)
آپ کا شمار اہلِ مکّہ کے رئیس خاندان میں ہوتا ہے۔ آپ کو خاندانی وجاہت کے علاوہ مال و دولت کے لحاظ سے بھی برتری حاصل تھی۔ طلوعِ اسلام کے بعد، اور اعلانیہ دعوتِ الی اللہ سے پہلے، خفیہ طور پر جب رسول اللہ ﷺ نے تبلیغ کا آغاز فرمایا تو آپ کی دعوت سے متاثر ہونے والوں میں سیدنا صدیق اکبر مردوں میں پہلے مشرف بالاسلام ہونے والے خوش نصیب صحابی بنے۔ حضرت صدیق اکبر نے ایمان لاتے ہی تبلیغ شروع کر دی اور عشرہ مبشرہ میں سے پانچ حضرات آپ ہی کی تبلیغی کوششوں سے اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ انہی میں سے ایک حضرت عثمان بن عفان بھی تھے۔ آپ کے اسلام لانے کی خبر جب آپ کے خاندان والوں کو ہوئی تو پورا خاندان ناراض ہو گیا، حتیٰ کہ آپ کے چچا حکم بن العاص نے آپ کو رسی سے باندھ دیا اور کہا: ’’جب تک تم نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے ہم تم کو اسی طرح باندھ کر رکھیں گے۔‘‘
حضرت عثمان غنی نے اپنے چچا کے جواب میں ایک تاریخی جملہ کہا:
’’خدائے ذوالجلال کی قسم! مذہبِ اسلام کو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا، اور نہ کبھی اس دولت سے دستبردار ہو سکتا ہوں۔ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو، یہ ہو سکتا ہے، مگر دل سے دینِ اسلام نکل جائے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔‘‘
حکم بن ابی العاص نے جب اس طرح آپ کا استقلال دیکھا تو مجبور ہو کر آپ کو رہا کر دیا۔ (خلفائے راشدین: ۱۸۶، ۱۸۷)
جذبۂ سخاوت:
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فیضانِ نبوت کے فیض یافتہ وہ صحابی ہیں جو اپنے مال و متاع کے ذریعے خدمتِ اسلام میں پیش پیش رہے۔ غلاموں کی آزادی کا معاملہ ہو یا مسلمانوں کی خیر خواہی کے امور، توسیعِ مسجد ہو یا وسعتِ اسلام کے لیے مالی قربانی، جنگی ساز و سامان ہوں یا سوشل ویلفیئر کے کام—ہر معاملے میں حضرت عثمان غنی نے اپنا مال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔
مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد، جب مسلمانوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا، تو اس وقت مدینہ میں قبیلہ بنی غفار کے ایک شخص کی ملکیت میں رومہ نامی کنواں تھا۔ یہ شخص ایک مد کے بدلے پانی کا مشکیزہ بیچتا تھا۔ آپ ﷺ نے بئرِ رومہ کے مالک سے فرمایا:
’’مجھے یہ چشمہ جنت کے چشمے کے بدلے بیچ دو۔‘‘
مالکِ کنواں نے حضور ﷺ کی پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کی۔ جب اس بات کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کے صحابی جناب عثمان غنی کو ہوئی تو آپ نے اس کنوئیں کو 35 ہزار درہم میں خرید کر بارگاہِ رسالت میں پیش کیا اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ! اگر میں وہ کنواں خریدوں تو کیا آپ میرے ساتھ بھی ویسا ہی معاملہ فرمائیں گے؟‘‘
(یعنی جنتی چشمے کے بدلے مجھ سے قبول فرمائیں گے؟)
رحمتِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بالکل۔‘‘
حضرت عثمان غنی نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ! میں نے وہ کنواں خرید کر تمام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ہے۔‘‘
(معجم کبیر: 2/41، حدیث: 1226)
حضرت عثمان غنی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب پر دو بار جنت خریدی۔ ایک بار جب بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کیا، اور دوسری بار جب غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے جنگ کی تیاری کا اعلان کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کے پاس جنگی سامان کی بہت زیادہ قلت تھی اور مالی حالات بھی مستحکم نہ تھے۔ درحقیقت مدینہ میں قحط پڑا ہوا تھا، لوگ درختوں کے پتے کھا کر گزارا کر رہے تھے۔ اسی لیے اس غزوہ کو جیشِ عسرہ یعنی تنگدستی کا لشکر کہا جاتا ہے۔
اس اہم موقع پر حضرت عثمان غنی نے غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے تین بار رسول اللہ ﷺ کی ترغیب پر:
• سو اونٹ مع ساز و سامان،
• پھر دو سو اونٹ پالان اور سامان کے ساتھ،
• پھر تین سو اونٹ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں پیش کرنے کا وعدہ کیا۔
سخاوتِ عثمان کی حدیث بیان کرنے والے راوی حضرت عبد الرحمن بن خباب فرماتے ہیں:
**’’میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ منبر سے اترتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے:
’’مَا عَلٰی عُثمَانَ مَا عَمِلَ بَعدَ ھٰذِہ، مَا عَلٰی عُثمَانَ مَا عَمِلَ بَعدَ ھٰذِہ۔‘‘
یعنی ایک ہی جملے کو حضور ﷺ نے دو بار فرمایا۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو وہ اس کے بعد کریں گے۔‘‘
(خلفائے راشدین: ۱۹۲)
حضرت سیدنا عثمان غنی زبردست عاشقِ رسول ﷺ بلکہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا عملی نمونہ تھے۔ اپنے اقوال و افعال میں حضور ﷺ کی سنتیں اور ادائیں خوب خوب اپنایا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت عثمان غنی نے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگوا کر کھایا اور بغیر تازہ وضو کیے نماز ادا کی، پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی جگہ بیٹھ کر یہی کھایا تھا اور اسی طرح کیا تھا۔
(مسند امام احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۱۳۷، حدیث: ۴۴۱)
حضرت عثمان غنی ایک بار وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا:
’’میں نے ایک مرتبہ حضور ﷺ کو اسی جگہ پر وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘
(ایضاً: ۱۳۰، حدیث: ۴۱۵)
حضرت عثمان غنی کی عظمت و شان، رفعتِ مکان، بلندیِ مراتب، فضائل و کمالات، مقام و مرتبہ کے بارے میں مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں بہت کچھ لکھا ہے، لیکن جو فضائل احادیث میں آپ کے بارے میں وارد ہوئے ہیں انہی پر اکتفا کرتے ہوئے دو فرامینِ رسول پیش کیے جاتے ہیں:
1. ترمذی شریف اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک روز حضرت عثمان غنی سے فرمایا:
’’اے عثمان! خدائے تعالیٰ تجھ کو ایک قمیص پہنائے گا‘‘ یعنی خلعتِ خلافت سے سرفراز فرمائے گا، ’’پھر اگر لوگ اس قمیص کے اتارنے کا تجھ سے مطالبہ کریں تو ان کی خواہش پر اس قمیص کو مت اتارنا‘‘ یعنی خلافت نہیں چھوڑنا۔
اسی لیے جس روز ان کو شہید کیا گیا انہوں نے حضرت ابو سہلہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’حضور ﷺ نے مجھ کو خلافت کے بارے میں وصیت فرمائی تھی، اسی لیے میں اس وصیت پر قائم ہوں اور جو کچھ مجھ پر بیت رہی ہے اس پر صبر کر رہا ہوں۔‘‘
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، حدیث: 3725)
2. ترمذی شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:
جب رسول اللہ ﷺ نے مقام حدیبیہ میں بیعتِ رضوان کا حکم فرمایا، اس وقت حضرت عثمان غنی حضور ﷺ کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے۔ لوگوں نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جب سب لوگ بیعت کر چکے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’عثمان خدا اور رسولِ خدا ﷺ کے کام سے گئے ہوئے ہیں‘‘
پھر اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا، یعنی حضرت عثمان غنی کی طرف سے خود بیعت فرمائی۔
لہٰذا، رسول اللہ ﷺ کا مبارک ہاتھ حضرت عثمان غنی کے لیے ان ہاتھوں سے بہتر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے بیعت کی۔
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، حدیث: 3722)
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خلافت کے لیے منتخب کردہ چھ صحابہ: حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف، اور حضرت سعد بن ابی وقاص میں سے حضرت عثمان بن عفان کو مسندِ خلافت کے لیے منتخب کیا گیا۔ آپ کا دورِ خلافت بارہ سال پر محیط ہے۔ آپ کے زمانۂ خلافت میں اسلامی سرحدوں میں مزید وسعت ہوئی، فتوحات کا نیا دور شروع ہوا۔ آپ ہی کے دورِ خلافت میں خراسان کا شہر فتح ہوا، جو اس وقت ایران کا دارالخلافہ "تہران” کے نام سے مشہور ہے۔ آپ ہی کے دورِ خلافت میں بحری بیڑے کے ذریعے قبرص فتح ہوا۔ افریقہ، ہسپانیہ (یعنی اسپین)، ایران کے دیگر شہر اور دیگر ممالک اسلامی سرحدوں میں شامل ہوئے۔
حضرت عثمان غنی بارہ سال خلافت فرما کر 18 ذی الحجہ، سن 35 ہجری، بروز جمعہ، روزے کی حالت میں تقریباً 82 سال کی عمر میں نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کیے گئے۔ شہادت کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں فرماتے سنا:
’’بیشک عثمان کو جنت میں عالی شان دولہا بنایا گیا ہے۔‘‘
(ریاض النضرۃ: 76)
اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو، اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
زززز

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں

تازہ ترین خبریں

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

وادی کے جھیلوں کی چمک، اور فضاؤں کی مہک آپ کو بلا رہی ہے

جنگ نیوز ڈیسک سرینگر//جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی ایڈیشنل...

تازہ ترین خبریں

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

وادی کے جھیلوں کی چمک، اور فضاؤں کی مہک آپ کو بلا رہی ہے

جنگ نیوز ڈیسک سرینگر//جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی ایڈیشنل...

حضرت عثمان غنی(ر): عظمت و شان اور مناقب و محاسن

18 ذی الحجہ: یومِ وصال حضرت عثمان غنی (ر) پر خصوصی پیشکش

حافظ افتخار احمد

جامع القرآن، امیرالمومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ، سابقینِ اولین میں چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والے وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں فیاضِ ازل سے سخاوت کا وہ فیض ملا جس نے آپ کی زندگی کو انفاق فی سبیل اللہ کی رہتی دنیا تک مثال بنا دیا، اور آپ خدمتِ اسلام میں سخاوت کی وجہ سے "سیدالاسخیاء” کہلائے۔ آپ کو فیضانِ نبوت سے دو نور عطا کیے جانے کا وہ شرف حاصل ہوا جس نے آپ کو "ذوالنورین” بنا دیا، اور یہ شرف اولادِ آدم میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ آپ "کامل الحیاء والایمان” کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہونے والے وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کی شرم و حیا پر ملائکہ بھی نازاں ہیں۔ اس عظیم المرتبت صحابیٔ رسول کی عظمت و شان اور مناقب و محاسن کے بیان میں کتبِ حدیث اور کتبِ سیرتِ صحابہ سے چند اقتباسات قارئین کی نذر ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
آپ کا نام ’’عثمان‘‘، کنیت ابو عمر، اور لقب ’’ذوالنورین‘‘ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: عثمان بن عفان، بن ابوالعاص، بن امیہ، بن عبد شمس، بن عبد مناف۔ یعنی پانچویں پشت میں آپ کا نسب رسول اللہ ﷺ کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ کی نانی ام حکیم، جو حضرت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں، وہ حضور ﷺ کے والدِ گرامی حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک ہی پیٹ سے پیدا ہوئی تھیں۔ اس رشتے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی والدہ، حضور ﷺ کی پھوپھی کی بیٹی تھیں۔ آپ کی پیدائش عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء: ۱۱۸)
آپ کا شمار اہلِ مکّہ کے رئیس خاندان میں ہوتا ہے۔ آپ کو خاندانی وجاہت کے علاوہ مال و دولت کے لحاظ سے بھی برتری حاصل تھی۔ طلوعِ اسلام کے بعد، اور اعلانیہ دعوتِ الی اللہ سے پہلے، خفیہ طور پر جب رسول اللہ ﷺ نے تبلیغ کا آغاز فرمایا تو آپ کی دعوت سے متاثر ہونے والوں میں سیدنا صدیق اکبر مردوں میں پہلے مشرف بالاسلام ہونے والے خوش نصیب صحابی بنے۔ حضرت صدیق اکبر نے ایمان لاتے ہی تبلیغ شروع کر دی اور عشرہ مبشرہ میں سے پانچ حضرات آپ ہی کی تبلیغی کوششوں سے اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ انہی میں سے ایک حضرت عثمان بن عفان بھی تھے۔ آپ کے اسلام لانے کی خبر جب آپ کے خاندان والوں کو ہوئی تو پورا خاندان ناراض ہو گیا، حتیٰ کہ آپ کے چچا حکم بن العاص نے آپ کو رسی سے باندھ دیا اور کہا: ’’جب تک تم نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے ہم تم کو اسی طرح باندھ کر رکھیں گے۔‘‘
حضرت عثمان غنی نے اپنے چچا کے جواب میں ایک تاریخی جملہ کہا:
’’خدائے ذوالجلال کی قسم! مذہبِ اسلام کو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا، اور نہ کبھی اس دولت سے دستبردار ہو سکتا ہوں۔ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو، یہ ہو سکتا ہے، مگر دل سے دینِ اسلام نکل جائے، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔‘‘
حکم بن ابی العاص نے جب اس طرح آپ کا استقلال دیکھا تو مجبور ہو کر آپ کو رہا کر دیا۔ (خلفائے راشدین: ۱۸۶، ۱۸۷)
جذبۂ سخاوت:
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فیضانِ نبوت کے فیض یافتہ وہ صحابی ہیں جو اپنے مال و متاع کے ذریعے خدمتِ اسلام میں پیش پیش رہے۔ غلاموں کی آزادی کا معاملہ ہو یا مسلمانوں کی خیر خواہی کے امور، توسیعِ مسجد ہو یا وسعتِ اسلام کے لیے مالی قربانی، جنگی ساز و سامان ہوں یا سوشل ویلفیئر کے کام—ہر معاملے میں حضرت عثمان غنی نے اپنا مال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔
مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد، جب مسلمانوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا، تو اس وقت مدینہ میں قبیلہ بنی غفار کے ایک شخص کی ملکیت میں رومہ نامی کنواں تھا۔ یہ شخص ایک مد کے بدلے پانی کا مشکیزہ بیچتا تھا۔ آپ ﷺ نے بئرِ رومہ کے مالک سے فرمایا:
’’مجھے یہ چشمہ جنت کے چشمے کے بدلے بیچ دو۔‘‘
مالکِ کنواں نے حضور ﷺ کی پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کی۔ جب اس بات کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کے صحابی جناب عثمان غنی کو ہوئی تو آپ نے اس کنوئیں کو 35 ہزار درہم میں خرید کر بارگاہِ رسالت میں پیش کیا اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ! اگر میں وہ کنواں خریدوں تو کیا آپ میرے ساتھ بھی ویسا ہی معاملہ فرمائیں گے؟‘‘
(یعنی جنتی چشمے کے بدلے مجھ سے قبول فرمائیں گے؟)
رحمتِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بالکل۔‘‘
حضرت عثمان غنی نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ! میں نے وہ کنواں خرید کر تمام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا ہے۔‘‘
(معجم کبیر: 2/41، حدیث: 1226)
حضرت عثمان غنی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کی انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب پر دو بار جنت خریدی۔ ایک بار جب بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کیا، اور دوسری بار جب غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے جنگ کی تیاری کا اعلان کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کے پاس جنگی سامان کی بہت زیادہ قلت تھی اور مالی حالات بھی مستحکم نہ تھے۔ درحقیقت مدینہ میں قحط پڑا ہوا تھا، لوگ درختوں کے پتے کھا کر گزارا کر رہے تھے۔ اسی لیے اس غزوہ کو جیشِ عسرہ یعنی تنگدستی کا لشکر کہا جاتا ہے۔
اس اہم موقع پر حضرت عثمان غنی نے غزوۂ تبوک کی تیاری کے لیے تین بار رسول اللہ ﷺ کی ترغیب پر:
• سو اونٹ مع ساز و سامان،
• پھر دو سو اونٹ پالان اور سامان کے ساتھ،
• پھر تین سو اونٹ نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں پیش کرنے کا وعدہ کیا۔
سخاوتِ عثمان کی حدیث بیان کرنے والے راوی حضرت عبد الرحمن بن خباب فرماتے ہیں:
**’’میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ منبر سے اترتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے:
’’مَا عَلٰی عُثمَانَ مَا عَمِلَ بَعدَ ھٰذِہ، مَا عَلٰی عُثمَانَ مَا عَمِلَ بَعدَ ھٰذِہ۔‘‘
یعنی ایک ہی جملے کو حضور ﷺ نے دو بار فرمایا۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو وہ اس کے بعد کریں گے۔‘‘
(خلفائے راشدین: ۱۹۲)
حضرت سیدنا عثمان غنی زبردست عاشقِ رسول ﷺ بلکہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا عملی نمونہ تھے۔ اپنے اقوال و افعال میں حضور ﷺ کی سنتیں اور ادائیں خوب خوب اپنایا کرتے تھے۔ ایک دن حضرت عثمان غنی نے مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر بکری کی دستی کا گوشت منگوا کر کھایا اور بغیر تازہ وضو کیے نماز ادا کی، پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی جگہ بیٹھ کر یہی کھایا تھا اور اسی طرح کیا تھا۔
(مسند امام احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۱۳۷، حدیث: ۴۴۱)
حضرت عثمان غنی ایک بار وضو کرتے ہوئے مسکرانے لگے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا:
’’میں نے ایک مرتبہ حضور ﷺ کو اسی جگہ پر وضو فرمانے کے بعد مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘
(ایضاً: ۱۳۰، حدیث: ۴۱۵)
حضرت عثمان غنی کی عظمت و شان، رفعتِ مکان، بلندیِ مراتب، فضائل و کمالات، مقام و مرتبہ کے بارے میں مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں بہت کچھ لکھا ہے، لیکن جو فضائل احادیث میں آپ کے بارے میں وارد ہوئے ہیں انہی پر اکتفا کرتے ہوئے دو فرامینِ رسول پیش کیے جاتے ہیں:
1. ترمذی شریف اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک روز حضرت عثمان غنی سے فرمایا:
’’اے عثمان! خدائے تعالیٰ تجھ کو ایک قمیص پہنائے گا‘‘ یعنی خلعتِ خلافت سے سرفراز فرمائے گا، ’’پھر اگر لوگ اس قمیص کے اتارنے کا تجھ سے مطالبہ کریں تو ان کی خواہش پر اس قمیص کو مت اتارنا‘‘ یعنی خلافت نہیں چھوڑنا۔
اسی لیے جس روز ان کو شہید کیا گیا انہوں نے حضرت ابو سہلہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’حضور ﷺ نے مجھ کو خلافت کے بارے میں وصیت فرمائی تھی، اسی لیے میں اس وصیت پر قائم ہوں اور جو کچھ مجھ پر بیت رہی ہے اس پر صبر کر رہا ہوں۔‘‘
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، حدیث: 3725)
2. ترمذی شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:
جب رسول اللہ ﷺ نے مقام حدیبیہ میں بیعتِ رضوان کا حکم فرمایا، اس وقت حضرت عثمان غنی حضور ﷺ کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے۔ لوگوں نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جب سب لوگ بیعت کر چکے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’عثمان خدا اور رسولِ خدا ﷺ کے کام سے گئے ہوئے ہیں‘‘
پھر اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا، یعنی حضرت عثمان غنی کی طرف سے خود بیعت فرمائی۔
لہٰذا، رسول اللہ ﷺ کا مبارک ہاتھ حضرت عثمان غنی کے لیے ان ہاتھوں سے بہتر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے بیعت کی۔
(سنن الترمذی، کتاب المناقب، حدیث: 3722)
حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد خلافت کے لیے منتخب کردہ چھ صحابہ: حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف، اور حضرت سعد بن ابی وقاص میں سے حضرت عثمان بن عفان کو مسندِ خلافت کے لیے منتخب کیا گیا۔ آپ کا دورِ خلافت بارہ سال پر محیط ہے۔ آپ کے زمانۂ خلافت میں اسلامی سرحدوں میں مزید وسعت ہوئی، فتوحات کا نیا دور شروع ہوا۔ آپ ہی کے دورِ خلافت میں خراسان کا شہر فتح ہوا، جو اس وقت ایران کا دارالخلافہ "تہران” کے نام سے مشہور ہے۔ آپ ہی کے دورِ خلافت میں بحری بیڑے کے ذریعے قبرص فتح ہوا۔ افریقہ، ہسپانیہ (یعنی اسپین)، ایران کے دیگر شہر اور دیگر ممالک اسلامی سرحدوں میں شامل ہوئے۔
حضرت عثمان غنی بارہ سال خلافت فرما کر 18 ذی الحجہ، سن 35 ہجری، بروز جمعہ، روزے کی حالت میں تقریباً 82 سال کی عمر میں نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کیے گئے۔ شہادت کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو خواب میں فرماتے سنا:
’’بیشک عثمان کو جنت میں عالی شان دولہا بنایا گیا ہے۔‘‘
(ریاض النضرۃ: 76)
اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو، اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
زززز

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں