عمران راقم
تیرے جلوؤں کی خطاؤں کا بھرم رکھنا ہے
عشق کی راہ میں تھم تھم کے قدم رکھنا ہے
اشک کے پھول کھلانے کے لئے اپنے دل میں
عمر بھر تازہ محبت کا یہ غم رکھنا ہے
کس طرح توڑ دوں میں وعدہ محبت کا اب
جیتے جی مجھکو شریعت کا بھرم رکھنا ہے
گر صنم ہوتا ہے اب شرم سے پانی پانی
ان کے عارض پہ مگر بوسۂ نم رکھنا ہے
اس سے پہلے کہ میسر نہ ہو آب و دانا
اپنی اوقات سے خواہش کوبھی کم رکھنا ہے
سارے رشتے ہیں یہاں کاغزی کشتی کی طرح
اب کسی سے بھی نہ امید کرم رکھنا ہے
یہ جو دنیا ہے دکھاوے کی ‘ طوائف کی طرح
اس طرف نظروں کو اپنی ذرا کم رکھنا ہے
جنگ افواج کے بوتے پہ نہیں جیتی جاتی
اپنے بازو میں بھی فولاد کا دم رکھنا ہے
پوچھتا کوئی نہیں علم ہے کس میں کتنا
بس دکھاوے کے لئے دو دو قلم رکھنا ہے
جب تلک پسپا نہیں ہوتے ہیں دشمن راقم
دل میں ہراک کا مجھےظلم و ستم رکھنا ہے
ززز