صداقت علی ملک
کتاب "جلتا گلاب”، معروف مصنف ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کا تخلیقی شاہکار ہے، جو نہ صرف ایک فرد کی ادبی اور انسانی بصیرت کا مظہر ہے بلکہ بھدرواہ کی خوشبو، رنگ، اور تہذیبی جمالیات کا بھی عکاس ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ، جسے محمد یوسف ٹینگ نے نہایت بصیرت کے ساتھ قلم بند کیا ہے، ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور تحریری اسلوب پر روشنی ڈالتا ہے۔
یہ کتاب کی ایک گراں قدر افسانوی کاوش ہے، جس میں انہوں نے زندگی کے مختلف رنگوں اور تہذیبی پہلوؤں کو کہانیوں کے قالب میں ڈھالا ہے۔ یہ مجموعہ 65 مختصر افسانوں پر مشتمل ہے، جن میں معاشرتی، جذباتی، اخلاقی، اور نفسیاتی پہلوؤں کو نہایت ہنر مندی سے پیش کیا گیا ہے۔
کتاب کا آغاز محمد یوسف ٹینگ، نور شاہ، ولی محمد اسیر، شمشاد کرالواری، بشیر احمد خطیب، ڈاکٹر مشتاق احمد وانی، ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری، پرویز مانوس جیسے ناقدین کے دیباچوں اور تاثرات سے ہوتا ہے۔ یہ تحریریں مصنف کی شخصیت، علمی پس منظر، اور فکری جہات کو اجاگر کرتی ہیں۔ خاص طور پر ولی محمد اسیر نے اس مجموعے کو "ادب برائے زندگی” کی اعلیٰ مثال قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی ایک ماہر معالج ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ قلم شخصیت ہیں۔ ان کا تعلق بھدرواہ جیسے ثقافتی، لسانی اور قدرتی حسن سے بھرپور علاقے سے ہے، جس کی جھلک ان کے افسانوں میں بھی بارہا نظر آتی ہے۔ ان کی طبی پیشہ ورانہ زندگی نے انہیں انسانی نفسیات کا گہرا مشاہدہ دیا ہے، جو افسانوں میں ان کے کرداروں کی گہرائی سے عیاں ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مجید کا اسلوب نہایت سادہ، سلیس اور دل کو چھو لینے والا ہے۔ وہ ثقیل زبان یا غیر فطری ترکیبات سے گریز کرتے ہیں اور عام فہم اردو میں زندگی کے پیچیدہ ترین مسائل کو بیان کرتے ہیں۔ مکالمے فطری، منظر نگاری جاندار اور بیانیہ رواں دواں ہے۔ مقامی بولیوں کا برمحل استعمال افسانوں کو ثقافتی رنگ عطا کرتا ہے۔
کتاب کے افسانے عورت کی نفسیاتی و معاشرتی حیثیت کو اجاگر کرتے ہیں جیسے "چینج آور”، "بیوی ہم نہیں بنیں گی”، "بے کار ہیں ابھی آہ حرارتی”، "بے رحم مذہب”
ان افسانوں میں خواتین کی معاشرتی مظلومیت، ان کے جذبات، اور رشتوں میں ان کی حیثیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے افسانے سماجی انصاف اور اخلاقیات کا اظہار کرتے ہیں۔ کتاب میں افسانہ امانت کا حقدار”، "تعمیر مسجد کے لیے”، "لو آپ پھر سے”، "قصور سنت ہے” میں معاشرتی ناانصافی، مذہب کی ظاہرداری، اور فرد و سماج کے رشتے کو تنقیدی انداز میں دکھایا گیا ہے۔
ان نے افسانے انسانی نفسیات اور درد مندی کا اظہار بھی کرتے ہیں جیسے "زہریلی آنکھیں”، "خواب اور آنسو” میں مصنف نے کرداروں کی داخلی کشمکش اور انسانی جذبات کو فکری لطافت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
عنوان "جلتا گلاب” بذاتِ خود ایک استعارہ ہے ایسے انسانی جذبات کا جو معاشرتی جبر کے باعث سلگ رہے ہوں، لیکن ظاہری طور پر خوبصورت دکھائی دیں۔ کئی افسانے علامتی انداز میں لکھے گئے ہیں، جیسے "زہریلی آنکھیں” جہاں نگاہوں کے ذریعے سماجی رویوں کو بیان کیا گیا ہے۔
ان کے افسانوں میں عورت مظلوم، مگر باشعور اور باوقار نظر آتی ہے۔ وہ کبھی ماں ہے، کبھی بیٹی، کبھی بیوی اور کہیں محبوبہ۔ مصنف نے ان کرداروں میں زندگی کی کشمکش، سماجی استحصال، اور جذباتی گہرائی بھرپور انداز میں دکھائی ہے۔
زبان میں روانی اور صفائی ہے۔ مکالمے کردار کی نفسیات کے مطابق ہیں۔ کہانی کا پلاٹ اکثر سادہ مگر مؤثر ہوتا ہے۔
افسانے میں اکثر چونکا دینے والے انجام یا Twist شامل کیے گئے ہیں۔
کچھ افسانوں کے عنوانات نسبتاً طویل اور خطیبی انداز کے ہیں جو تخلیقی فضا کو قدرے متاثر کرتے ہیں۔ مگر یہ معمولی کمزوری افسانوی مواد کی گہرائی، صداقت اور فنی خوبیوں سے دب جاتی ہے۔
محمد یوسف ٹینگ نے ڈاکٹر مجید کی تخلیق کو انسانی سچائیوں کی تصویر قرار دیا تو نامور افسانہ نگار نور شاہ نے ان کے افسانوں کو حقیقت پسندانہ اور انسانی درد کا ترجمان کہا. ولی محمد اسیر کے مطابق یہ کتاب صرف افسانوں کا مجموعہ نہیں بلکہ فکری اثاثہ ہے۔
بھدرواہی کو ایک سچا تخلیق کار اور فنکار قرار دیا گیا ہے۔ ان کی تحریروں میں سادگی، صفائی اور فصاحت کے ساتھ انسانی فطرت کا گہرا مشاہدہ بھی جھلکتا ہے۔ ان کی تحریریں محض افسانے نہیں بلکہ زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہیں، جن میں جذبات، مشاہدات، اور تخیل کا حسین امتزاج ملتا ہے۔
پیش لفظ میں بارہا ذکر ہوا ہے کہ مصنف نے بھدرواہ کی سرزمین، قدرتی مناظر، تہذیب، اور لوگوں کے جذبات کو اپنے افسانوں کے ذریعے گویا زندہ کر دیا ہے۔ "لیونڈر” کے پھولوں سے بھری وادی ہو یا انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں ڈاکٹر مجید صاحب نے سب کو خوبصورتی سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔
مصنف کا اسلوب نہایت رواں، شستہ اور قاری کو اپنی گرفت میں لینے والا ہے۔ ان کے افسانوں میں Touch کی وہ باریکی موجود ہے جو صرف اعلیٰ تخلیق کاروں کے ہاں نظر آتی ہے۔ افسانہ گوئی کی باریکیاں، مکالمے کا شعور، کرداروں کی نفسیات، اور منظر نگاری ان کی فکری پختگی کا ثبوت ہیں۔
یوسف ٹینگ صاحب نے بجا طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالمجید کا قلم انسانی جذبات اور رشتوں کے وہ پہلو اجاگر کرتا ہے جو عموماً نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں نہ صرف ادب کا حسن جھلکتا ہے بلکہ انسانی سچائی اور حسنِ سلوک کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
نور شاہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ ڈاکٹر عبد الحمید لون کی تحریریں صرف تخیل کا کھیل نہیں بلکہ ایک ذمہ دارانہ رویے کی نمائندہ ہیں۔ وہ اپنے افسانوں کو ایک مقصد، ایک پیغام اور ایک جذبے کے تحت لکھتے ہیں۔ یہی ان کی تحریر کو بامعنی اور مؤثر بناتا ہے۔
نور شاہ کے تاثرات اس بات کی دلیل ہیں کہ ڈاکٹر عبد الحمید لون محض افسانہ نگار نہیں بلکہ ایک حساس دل، باشعور دماغ، اور ذمہ دار قلم کے مالک ادیب ہیں۔ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے انسانیت، محبت، اخلاص، اور سچائی کا پیغام دیتے ہیں۔ اردو ادب میں ایسے ادیبوں کی موجودگی نہ صرف ادب کے وقار میں اضافہ کرتی ہے بلکہ سماج میں مثبت تبدیلیوں کے در بھی کھولتی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے ان کی کتاب "چبھن” شایع ہوئی ہے اور ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ہوئی ہے۔
اس کتاب کی رسم رونمایی جموں و کشمیر اکیڈمی آف آرٹ کلچر اور لینگویجز کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام مورخہ 31 مئی 2025 کو اکیڈمی کے احاطے میں منعقد
ہوئی۔ اس تقریب میں رخسانہ جبین، پروفیسر ایاز رسول نازکی، خالد حسین، ابدال مہجور، شمشاد کرالوری، نذیر فدا، غلام نبی شاہد، خیال لداخی، شفیع احمد، اصغر رسول، ناصر ضمیر، جاوید رسول، شیخ بشیر، عبدالرشید راہگیر، ایڈووکیٹ خلیل الرحمان، عابد احمد، جاوید اقبال خان، ڈاکٹر گلزار احمد راتھر ، جمیل انصاری، ڈاکٹر محمد اشرف لون، ڈاکٹر نذیر مشتاق، راجہ یوسف، ایوب دلبر، رہانہ شجر، ڈاکٹر محمد اقبال لون، محمد سلیم سالک اور عادل سلیم تشریف فرما تھے۔
جلتا گلاب” محض ایک کتاب نہیں بلکہ انسانی احساسات، سماجی تنقید، اور تہذیبی اقدار کا آئینہ ہے۔ اس میں شامل افسانے ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے فکری تحفہ ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کی یہ تخلیق اردو افسانہ نگاری کی روایت میں ایک مضبوط اور منفرد اضافہ ہے۔
آج کل اس کتاب کی ادبی حلقوں میں گونج سنائی دے رہی ہے۔ یہ کتاب سماج کے ہر پہلو کی پاسداری کرتی ہے اور میرے جیسے افسانہ کے ہزاروں طالب علموں کے لئے باعث تحریک ثابت ہوگی۔