جنگ نیوز ڈیسک
سرینگر/ سی بی آئی کی اینٹی کرپشن برانچ نے 2014 کے تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرین کو دی گئی مالی امداد کی تقسیم میں بڑے گھوٹالے کا پردہ فاش کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر دفتر سرینگر، ریونیو افسران اور مقامی دلالوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
حکام کے مطابق، ابتدائی تحقیقات اور سرپرائز چیک میں پتہ چلا کہ ڈی سی آفس سرینگر اور تحصیل سینٹرل شلتنگ کے افسران نے ملی بھگت سے فرضی دکانداروں کی جعلی فہرستیں تیار کر کے حکومت سے مالی امداد منظور کروائی۔ ان فہرستوں میں 1503 فرضی دکاندار شامل تھے، جن میں سے اکثر کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ یہ فہرستیں بغیر کسی تصدیق اور حلف نامے کے جمع کروائی گئیں۔
تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ نام نہاد ’الفلاح دکاندار ایسوسی ایشن‘ اور ’فlood affected coordination committee‘ جیسی تنظیمیں فرضی تھیں۔ اس کے باوجود ان کے ذریعے جعلی فہرستیں حکام کو پیش کی گئیں اور ان کے نام پر 7 کروڑ 51 لاکھ روپے سے زائد کی رقم سرکاری خزانے سے نکلوائی گئی۔
بعدازاں 1503 افراد نے ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کی، جسے عدالت نے دیگر مشابہہ کیسز کے تحت نمٹا دیا۔ سی بی آئی کے مطابق، ان درخواست گزاروں نے بھی اس بڑے گھوٹالے میں ساز باز کر کے جعلی معلومات اور بینک اکاؤنٹس فراہم کیے تاکہ غلط طریقے سے مالی امداد حاصل کی جا سکے۔
مزید برآں، ایک وکیل ظہور احمد بھٹ، جنہوں نے 24 درخواست گزاروں کی نمائندگی کی، خود بھی اس گھوٹالے میں ملوث پائے گئے کیونکہ ان کے آٹھ قریبی رشتہ دار بھی فرضی فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔
سی بی آئی نے تمام متعلقہ افسران، دلالوں (جیسے طارق احمد ملک اور طارق احمد شیخ) اور فرضی فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کرمنل سازش، دھوکہ دہی، سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ تحقیقات میں حکومت کو 7.51 کروڑ روپے کا نقصان اور کئی افراد کو ناجائز فائدہ پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے۔ مزید تفتیش جاری ہے۔
سیلاب ریلیف گھوٹالہ: ڈپٹی کمشنر دفتر سرینگر کے اہلکاروں، دلالوں کے خلاف مقدمہ درج

سیلاب ریلیف گھوٹالہ: ڈپٹی کمشنر دفتر سرینگر کے اہلکاروں، دلالوں کے خلاف مقدمہ درج

جنگ نیوز ڈیسک
سرینگر/ سی بی آئی کی اینٹی کرپشن برانچ نے 2014 کے تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرین کو دی گئی مالی امداد کی تقسیم میں بڑے گھوٹالے کا پردہ فاش کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر دفتر سرینگر، ریونیو افسران اور مقامی دلالوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
حکام کے مطابق، ابتدائی تحقیقات اور سرپرائز چیک میں پتہ چلا کہ ڈی سی آفس سرینگر اور تحصیل سینٹرل شلتنگ کے افسران نے ملی بھگت سے فرضی دکانداروں کی جعلی فہرستیں تیار کر کے حکومت سے مالی امداد منظور کروائی۔ ان فہرستوں میں 1503 فرضی دکاندار شامل تھے، جن میں سے اکثر کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ یہ فہرستیں بغیر کسی تصدیق اور حلف نامے کے جمع کروائی گئیں۔
تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ نام نہاد ’الفلاح دکاندار ایسوسی ایشن‘ اور ’فlood affected coordination committee‘ جیسی تنظیمیں فرضی تھیں۔ اس کے باوجود ان کے ذریعے جعلی فہرستیں حکام کو پیش کی گئیں اور ان کے نام پر 7 کروڑ 51 لاکھ روپے سے زائد کی رقم سرکاری خزانے سے نکلوائی گئی۔
بعدازاں 1503 افراد نے ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کی، جسے عدالت نے دیگر مشابہہ کیسز کے تحت نمٹا دیا۔ سی بی آئی کے مطابق، ان درخواست گزاروں نے بھی اس بڑے گھوٹالے میں ساز باز کر کے جعلی معلومات اور بینک اکاؤنٹس فراہم کیے تاکہ غلط طریقے سے مالی امداد حاصل کی جا سکے۔
مزید برآں، ایک وکیل ظہور احمد بھٹ، جنہوں نے 24 درخواست گزاروں کی نمائندگی کی، خود بھی اس گھوٹالے میں ملوث پائے گئے کیونکہ ان کے آٹھ قریبی رشتہ دار بھی فرضی فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔
سی بی آئی نے تمام متعلقہ افسران، دلالوں (جیسے طارق احمد ملک اور طارق احمد شیخ) اور فرضی فائدہ اٹھانے والوں کے خلاف کرمنل سازش، دھوکہ دہی، سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ تحقیقات میں حکومت کو 7.51 کروڑ روپے کا نقصان اور کئی افراد کو ناجائز فائدہ پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے۔ مزید تفتیش جاری ہے۔