شیخ افلاق حسین سیمانی
وہ آج باتیں میرے خلاف کرتا ہے
وہی جو کل مجھ سے پیار کرتا تھا
ہم تو خیال میں بھی ایسا نہ کریں گے
وہ یہ راہ پہ ہر کسی سے کہا کرتا تھا
تو ہے میرا ایمان ، تو ہے میرا سب کچھ
یہ سب کہنے والا ، دل سے نہ کہتا تھا
وہ میرے خیال کی بھی تلاشی لیا کرتا تھا
میں جو کچھ کہتا ، وہ منہ بنا لیتا تھا
کم ظرف ہی سہی لیکن میرا اپنا تو تھا
پیار، محبت، عاشق ، یہ سب اُس میں نہ تھا
وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ تم ہو میری زندگی
پھر وہ شخص زمانے کی باتوں میں آگیا تھا
میں اُس کے معیار پر اُتر نہ سکا اے جہاں والو
وہ پیسے کا پجاری تھا ، جو میں نہ تھا
وہ اکثر لوگوں کی مثالیں بیان کرتا تھا
کیا پتہ تھا ، کہ وہ مجھے چھوڑنا چاہتا تھا
لوگ تو لوگ ہیں، اُن سے گِلہ کیسا
وہ اذیتیں دے ، یہ مجھے برداشت نہ تھا
وہ پیار کرتا تھا لیکن سیکھنے کے لیے
بعد مجھ سے ، کام آنے والا جو تھا
وہ حسین تھا اس سے کوئی انکار نہیں مجھے
گر وفا کرتا ، تو پھر میں اُس کا غلام تھا
چپ چاپ سنتا ہے ہر شخص کی بات کو سیمانی
سنتا نہ تھا جب اُس کی ، تو گنہگار کا خطاب ملتا تھا۔
ززز