"فلسطین: قبضہ اور مزاحمت” مزاحمت کی فکری و تاریخی دستاویز

مصنف: مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی
تبصرہ نگار: نور اللہ جاوید
فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے نہ صرف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا بلکہ امت مسلمہ کے فکری و جذباتی وجود کو بھی آزمایا۔ مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی کی تازہ تصنیف "فلسطین: قبضہ اور مزاحمت” اسی کرب، مزاحمت اور شعور کی داستان کو علمی، دینی اور تاریخی تناظر میں پیش کرتی ہے۔
یہ کتاب صرف فلسطینی مسئلے کی روداد نہیں بلکہ ایک فکری اور نظریاتی اعلامیہ ہے۔ مصنف نے اسرائیل کے قیام سے لے کر موجودہ دور کی حماس مزاحمت تک کی تاریخ کو مستند حوالوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ نہ صرف مغرب کی دوغلی پالیسیوں، عرب حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور اسرائیلی سفاکیت کا پردہ چاک کرتے ہیں، بلکہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطین کا حل مذاکرات میں نہیں، بلکہ مزاحمت میں ہے۔
مصنف کا انداز سادہ، مدلل اور مؤثر ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ فلسطین کا رشتہ صرف جغرافیہ سے نہیں بلکہ ایمان، تاریخ اور تہذیب سے بھی ہے۔ انہوں نے بیت المقدس کی شرعی اہمیت پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے جو قاری کو علمی اطمینان فراہم کرتی ہے۔
یہ کتاب دیگر اردو ادبیات میں موجود فلسطینی شاعری، فکشن اور داستانوں سے مختلف ہے۔ جہاں ادب میں استعارے اور جذبات کی گنجائش ہوتی ہے، وہیں خورشید عالم قاسمی کی تحریر میں معروضیت، تحقیق اور دلائل غالب ہیں۔ یہ کتاب فلسطین کے مسئلے کو ایک سنجیدہ علمی و سیاسی گفتگو کا موضوع بناتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے "طوفان الاقصیٰ” (7 اکتوبر 2023) کو اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے جھوٹے تصور کی موت قرار دیا ہے۔ ان کا مؤقف کہ "یہودی ریاست صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے”، بظاہر جذباتی لگتا ہے، مگر مصنف اسے دلائل و شواہد کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
مصنف کی فکری پختگی، عالمی سیاست پر گہری نظر، اور اسلامی تاریخ سے مضبوط وابستگی اس کتاب کو ایک حوالہ جاتی اہمیت عطا کرتی ہے۔ مستقبل کا کوئی بھی مورخ اگر اسرائیل کی بربریت، مغرب کی خاموشی، اور اہلِ غزہ کی مزاحمت پر تحقیق کرنا چاہے تو یہ کتاب اس کے لیے بنیاد فراہم کرے گی۔
کتاب کی طباعت، پیشکش اور زبان بھی عمدہ ہے۔ مرکز میڈیا اینڈ پبلی کیشنز پرائیوٹ لمیٹڈ، ممبئی نے اسے شائع کیا ہے۔ کتاب 313 صفحات پر مشتمل ہے اور سنجیدہ قارئین کے لیے ایک قیمتی اضافہ ہے۔
"فلسطین: قبضہ اور مزاحمت” صرف ایک کتاب نہیں، بلکہ بیداری کا پیغام ہے۔ یہ ان نسلوں کے لیے ہے جو فلسطین کو صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی وقار، دینی غیرت اور تہذیبی خودداری کا عنوان سمجھتی ہیں۔ مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے المیہ فلسطین کو فراموشی کے اندھیروں سے نکال کر علم و فکر کی روشنی میں رکھ دیا ہے۔

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں

تازہ ترین خبریں

وزارت داخلہ کی جانب سے رام بہادر رائے کو پدم بھوشن ایوارڈ پیش

بلال بشیر بٹ نئی دہلی/ جنگ نیوز/معروف صحافی اور اندرا...

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

تازہ ترین خبریں

وزارت داخلہ کی جانب سے رام بہادر رائے کو پدم بھوشن ایوارڈ پیش

بلال بشیر بٹ نئی دہلی/ جنگ نیوز/معروف صحافی اور اندرا...

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

"فلسطین: قبضہ اور مزاحمت” مزاحمت کی فکری و تاریخی دستاویز

مصنف: مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی
تبصرہ نگار: نور اللہ جاوید
فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے نہ صرف عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا بلکہ امت مسلمہ کے فکری و جذباتی وجود کو بھی آزمایا۔ مولانا خورشید عالم داؤد قاسمی کی تازہ تصنیف "فلسطین: قبضہ اور مزاحمت” اسی کرب، مزاحمت اور شعور کی داستان کو علمی، دینی اور تاریخی تناظر میں پیش کرتی ہے۔
یہ کتاب صرف فلسطینی مسئلے کی روداد نہیں بلکہ ایک فکری اور نظریاتی اعلامیہ ہے۔ مصنف نے اسرائیل کے قیام سے لے کر موجودہ دور کی حماس مزاحمت تک کی تاریخ کو مستند حوالوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ نہ صرف مغرب کی دوغلی پالیسیوں، عرب حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور اسرائیلی سفاکیت کا پردہ چاک کرتے ہیں، بلکہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطین کا حل مذاکرات میں نہیں، بلکہ مزاحمت میں ہے۔
مصنف کا انداز سادہ، مدلل اور مؤثر ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ فلسطین کا رشتہ صرف جغرافیہ سے نہیں بلکہ ایمان، تاریخ اور تہذیب سے بھی ہے۔ انہوں نے بیت المقدس کی شرعی اہمیت پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے جو قاری کو علمی اطمینان فراہم کرتی ہے۔
یہ کتاب دیگر اردو ادبیات میں موجود فلسطینی شاعری، فکشن اور داستانوں سے مختلف ہے۔ جہاں ادب میں استعارے اور جذبات کی گنجائش ہوتی ہے، وہیں خورشید عالم قاسمی کی تحریر میں معروضیت، تحقیق اور دلائل غالب ہیں۔ یہ کتاب فلسطین کے مسئلے کو ایک سنجیدہ علمی و سیاسی گفتگو کا موضوع بناتی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے "طوفان الاقصیٰ” (7 اکتوبر 2023) کو اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے جھوٹے تصور کی موت قرار دیا ہے۔ ان کا مؤقف کہ "یہودی ریاست صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے”، بظاہر جذباتی لگتا ہے، مگر مصنف اسے دلائل و شواہد کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
مصنف کی فکری پختگی، عالمی سیاست پر گہری نظر، اور اسلامی تاریخ سے مضبوط وابستگی اس کتاب کو ایک حوالہ جاتی اہمیت عطا کرتی ہے۔ مستقبل کا کوئی بھی مورخ اگر اسرائیل کی بربریت، مغرب کی خاموشی، اور اہلِ غزہ کی مزاحمت پر تحقیق کرنا چاہے تو یہ کتاب اس کے لیے بنیاد فراہم کرے گی۔
کتاب کی طباعت، پیشکش اور زبان بھی عمدہ ہے۔ مرکز میڈیا اینڈ پبلی کیشنز پرائیوٹ لمیٹڈ، ممبئی نے اسے شائع کیا ہے۔ کتاب 313 صفحات پر مشتمل ہے اور سنجیدہ قارئین کے لیے ایک قیمتی اضافہ ہے۔
"فلسطین: قبضہ اور مزاحمت” صرف ایک کتاب نہیں، بلکہ بیداری کا پیغام ہے۔ یہ ان نسلوں کے لیے ہے جو فلسطین کو صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی وقار، دینی غیرت اور تہذیبی خودداری کا عنوان سمجھتی ہیں۔ مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے المیہ فلسطین کو فراموشی کے اندھیروں سے نکال کر علم و فکر کی روشنی میں رکھ دیا ہے۔

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں