عندلیب گل کی تصنیف The Elegy of Unsaid Goodbyes پر بصیرت افروز ادبی جائزہ


محمد عرفات وانی

تاریخ کے عظیم ترین ادبی اذہان ہمیشہ انسانی جذبات کی ان گہرائیوں میں اترے ہیں جہاں پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اُن کے الفاظ نے محبت کی لطافت، غم کے بوجھ، اور تنہائی کی کرب ناک تلخی کو اس انداز میں قلم بند کیا کہ وہ محسوسات جو زبان سے ادا نہیں ہو سکتے، تحریر کی صورت میں دلوں تک اتر گئے۔ یہ تخلیقات محض کہانیاں نہیں ہوتیں، بلکہ وہ آئینے ہیں جو انسانی روح کے ان گوشوں کی عکاسی کرتے ہیں جہاں صرف خاموشی بستی ہے۔
عہد رفتہ کی لازوال داستانوں میں "لیلیٰ مجنوں” کی محبت، جسے قطیؔل شفائی نے اپنے اشعار میں امر کر دیا، "سلیم و انارکلی” کا المیہ جس میں عشق کی شدت اور جدائی کی تپش ہے، اور وادی کشمیر کے تناظر میں، راشد جمشید کا نام ایک ایسے شاعر کے طور پر ابھرتا ہے جس نے عشق کو کشمیر کی فطرت سے جوڑ کر ایک نئی جمالیات تخلیق کی۔

ان عظیم فنکاروں نے اپنے فن کی باریکیوں سے محبت کو اس کی اصل، خالص اور تکلیف دہ صورتوں میں پیش کیا۔ انہوں نے نہ صرف عشق کی خوشبو بلکہ اس کے درد، فراق، اور تڑپ کو اس شدت سے محسوس کرایا کہ قاری کو اپنی گم شدہ یادیں پھر سے زندہ ہوتی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ اور اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے، ترال کے ایک نوجوان عندلیب گل نے ایک دل دہلا دینے والا بیانیہ رقم کیا ہے، جس کا عنوان ہے: "The Elegy of Unsaid Goodbyes”۔

"The Elegy of Unsaid Goodbyes” محض ایک کتاب نہیں، بلکہ وہ خاموش آہ ہے جو ان لفظوں کا بدل ہے جو کبھی کہے ہی نہ جا سکے؛ وہ ہر دھڑکن جو سینے میں دبی رہی، وہ ہر درد جو الفاظ سے پرے تھا۔ یہ کتاب ان خاموشیوں کی ترجمان ہے جو اکثر لفظوں سے زیادہ گونج رکھتی ہیں، ان لمحوں کی شاہد ہے جہاں عشق اور درد ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں۔ ہر صفحہ ایک گہری فکری کیفیت سے لبریز ہے، جو قاری کو صرف پڑھنے پر نہیں بلکہ محسوس کرنے، ڈوبنے اور ہر جذبے کو جینے کی دعوت دیتا ہے۔

عندلیب گل اگرچہ عمر میں نوجوان ہیں، مگر ان کی تحریر میں جو بلوغت اور فکری گہرائی ہے، وہ بڑے بڑے اہل قلم کے ہاں کم ہی نظر آتی ہے۔ ان کا مشاہدہ، جذبات کی حقیقی عکاسی، اور محبت و فراق کے نقوش کو حقیقت کا رنگ دینا، "The Elegy of Unsaid Goodbyes” کو ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ یہ کتاب اس سچائی کو ثابت کرتی ہے کہ عشق، درد اور جدائی جیسے موضوعات صرف عمر یا تجربے سے وابستہ نہیں، بلکہ وہ جذبات ہیں جو ہر دل میں ایک ہی طرح سے دھڑکتے ہیں۔
یہ کتاب کے 31 ابواب، ہر ایک ایک منفرد جذبے اور جداگانہ داستان کا آئینہ ہیں۔ یہاں ہم ان ابواب پر مفصل روشنی ڈالیں گے تاکہ اس کتاب کی گہرائی اور حقیقت کو حقیقی معنوں میں محسوس کیا جا سکے۔
1. شگوفۂ محبت
یہ باب محبت کی معصوم ابتدا کو بیان کرتا ہے—جیسے بہار کا پہلا پھول، یا دل کی پہلی دھڑکن۔
محبت یہاں نئی ہے، نکھری ہوئی، بے داغ، اور چمکدار۔
پہلی محبت خوابوں سے بھی زیادہ حسین ہوتی ہے—شاید اس لیے کہ وہ حقیقت بننے کے لیے نہیں ہوتی…
2. جب باتیں کم ہونے لگیں
یہ باب اس خاموشی کو بیان کرتا ہے جو آہستہ آہستہ رشتوں میں در آتی ہے۔
جب دل ایک دوسرے سے دور ہونے لگتے ہیں، تو الفاظ اپنا رنگ کھو بیٹھتے ہیں، اور ایک پرجوش محبت خامشی کی نذر ہو جاتی ہے۔
3. جب میں نے تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھا
یہ وہ لمحہ ہے جب دل بے آواز ٹوٹتا ہے۔ الفاظ گم ہو جاتے ہیں، اور جذبات بے بسی میں ڈھل جاتے ہیں۔
تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھ کر—میرا دل چکناچور ہو گیا، اور میری آنکھیں خاموش ہو گئیں۔ وہ درد لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔
4. وہ لڑکی جو تم جیسی لگتی تھی، مگر تم نہ تھی
یہ باب یاد اور حقیقت کے درمیان دھندلا سا فرق دکھاتا ہے۔
محبت جان پہچانی صورتوں میں نظر آتی ہے، مگر دل کی کسک وہی رہتی ہے—ان کہی، ادھوری۔
5. وہ باتیں جو کہنا چاہتا تھا، مگر تمہارے جانے سے پہلے نہ کہہ سکا
پشیمانیوں کی ایک خاموش گیلری۔
یہ باب اُن الفاظ کو زبان دیتا ہے جو دل میں رہ گئے، اور اب صرف خاموشیوں میں گونجتے ہیں—”کاش” کی بازگشت بن کر۔

6. فاصلے—دلوں کے درمیان کی دوری
یہ صرف جسمانی جدائی کی کہانی نہیں، بلکہ دو دلوں کے بیچ بڑھتی ہوئی خلا کی تصویر ہے۔
یہ محبت میں فاصلے کی خامشی اور اذیت کو نمایاں کرتا ہے۔

7. اگر تمہیں کبھی میری یاد آئے… تو مت آنا
یہ خودداری اور ضد کا ایک باب ہے۔ دل ترستا ہے، مگر انا اسے ظاہر نہیں ہونے دیتی۔
یہ کہانی تڑپ اور خود احترام کے درمیان کشمکش کی ہے۔
8. جس رات میں پہلی بار تمہیں یاد کیے بغیر سویا
ایک تلخ مگر سکون بھرا سنگِ میل۔
یہ شفا کی جانب پہلا قدم ہے، اگرچہ اس کے دامن میں ایک ہلکی سی اداسی بھی چھپی ہوتی ہے—کچھ خوبصورت کے اختتام کی اداسی۔
کبھی کبھی، سکون درد کے بعد آتا ہے—جیسے ہر رات کے بعد روشنی…
9. تم نے مجھے آہستہ آہستہ بھلایا، میں نے تمہیں ایک ہی لمحے میں یاد کیا
یہ باب اُس بے رحمی کا عکس ہے جب کوئی ہمیں رفتہ رفتہ فراموش کرتا ہے،
جبکہ اُن کی یادیں ہمیں اچانک اور مکمل طور پر گھیر لیتی ہیں—زخمی کر دینے والی شدت سے۔
10. جس دن مجھے یہ احساس ہوا کہ میں بھی محبت کے قابل ہوں
یہ خود آگہی کا لمحہ ہے۔
یہ خود سے محبت کے جنم کی کہانی ہے، جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھی اسی محبت کے مستحق ہیں جو کبھی ہم نے دوسروں کو دی تھی۔
جب ہم خود سے محبت کرنا سیکھ لیتے ہیں، تو ہم سب سے عظیم محبت کو پا لیتے ہیں۔
۱۱۔ میں تنہا محبت کرتا رہا
یہ باب یکطرفہ محبت کی لطیف مگر پُراثر تصویر کشی کرتا ہے—ایسی چاہت جہاں خواب تو سانجھے تھے، مگر دل صرف ایک ہی دھڑکتا رہا۔ خواہشیں بےجواب رہ گئیں، اور جذبات بےقراری میں گھلتے رہے۔
۱۲۔ اختتام کبھی نہ آیا، مگر میں آ گیا
یہ باب اس سچائی کو بیان کرتا ہے کہ ہر زخم کا مرہم "اختتام” نہیں ہوتا۔ کچھ دروازے کبھی دوبارہ نہیں کھلتے، مگر زندگی پھر بھی ہمیں سکھا دیتی ہے کہ سوالوں کے بغیر بھی جینا ممکن ہے۔
۱۳۔ میں چاہتا تھا کہ تم رک جاؤ، مگر مجھے خود کی زیادہ ضرورت تھی
یہ ایک دردناک مگر لازمی حقیقت ہے—محبت قربانی مانگتی ہے، لیکن خود کو کھونے سے بچانا بھی ضروری ہے۔ یہ باب اندرونی کشمکش اور خودشناسی کا عکاس ہے۔
۱۴۔ اب تمہاری کمی محسوس نہیں ہوتی، مگر سب کچھ یاد ہے
جذبات مدھم ہو سکتے ہیں، مگر یادیں نہیں مٹتیں۔ یہ باب اس احساس کو اجاگر کرتا ہے کہ ہم آگے بڑھ جاتے ہیں، مگر ماضی کی کچھ تصویریں دل کے کونے میں ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔
۱۵۔ کچھ الوداعی کلمات زبان پر نہیں آتے
خاموشی میں چھپی ایک الوداعی صدا—یہ باب اُن لمحوں کی بات کرتا ہے جہاں زبان خاموش ہوتی ہے، مگر آنکھیں سب کچھ کہہ جاتی ہیں، اور دل ہر لمحہ یاد رکھتا ہے۔
۱۶۔ وہ میرے بغیر آگے بڑھ گئی — اور میں دیکھتا رہا
یہ ایک خاموش شکست کی کہانی ہے—کسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کسی اور کی دنیا بساتے دیکھنا، اور اندر ہی اندر ٹوٹتے جانا۔
۱۷۔ شفا کا مطلب آگے بڑھنا نہیں، بلکہ خود کو پھر سے پانا تھا
یہ باب دکھاتا ہے کہ اصل شفا بھول جانے میں نہیں، بلکہ خود سے دوبارہ جُڑنے میں ہے۔ یہ خودی کی واپسی کا خاموش سفر ہے۔
۱۸۔ میری وہ صورتیں جو تم سے محبت کرتی تھیں
محبت ہمیں بدل دیتی ہے۔ یہ باب ان روپوں کی بات کرتا ہے جو ہم کسی کی محبت میں اختیار کرتے ہیں—اور پھر جب وہ محبت چھوٹ جائے، ہم خود کو دوبارہ تلاش کرتے ہیں۔
۱۹۔ مجھے یوں فراموش کیا جانا نہیں چاہیے تھا
یہ دل کی ایک صدا ہے—ایک گہری، بےآواز فریاد کہ محبت میں بھول جانا آسان نہیں ہوتا، اور ہر دل اس قابل ہے کہ اسے عزت کے ساتھ یاد رکھا جائے۔
۲۰۔ وہ لمحہ جب میں نے "سکون” کو "اختتام” پر ترجیح دی
یہ باب بلوغت اور ادراک کی کہانی ہے—جہاں ہم وضاحتوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیتے ہیں اور دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ہر سوال کا جواب ضروری نہیں، کبھی کبھار صرف "سکون” ہی کافی ہوتا ہے۔
۲۱۔ تم میرے ہمیشہ نہیں، صرف میرے قریب تھے
یہ باب اُس درد کی عکاسی کرتا ہے جب کوئی بہت قریب ہو مگر ہمیشہ کے لیے نہ ہو سکے۔ یہ ایک ادھوری محبت کی اذیت ناک کہانی ہے—جہاں کسی کی موجودگی تو حقیقت بن گئی، مگر مکمل نہ ہو سکی۔
۲۲۔ تمہیں کھونے کے بعد میں نے کیا سیکھا
یہ باب ایک غور و فکر اور روح کی روشنی کی داستان ہے۔ یہاں انسان زخم خوردہ دل سے اپنے اصل کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ سکھاتا ہے کہ ہر نقصان میں ایک چھپی ہوئی حکمت ہوتی ہے۔

۲۳۔ تم نے مجھے یوں چھوڑا جیسے میں کچھ بھی نہ تھا، اور میں نے جانا کہ میں سب کچھ تھا
یہ خودشناسی کا اعلان ہے۔ جب کوئی چھوڑ جاتا ہے اور پھر بھی انسان اپنے آپ کو قیمتی محسوس کرتا ہے۔ اس باب میں یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کسی کے جانے سے ہماری قدر کم نہیں ہوتی۔
۲۴۔ میں کیسے وہ شخص بنا جس کی مجھے ہمیشہ ضرورت تھی
یہ خودسازی کی ایک حسین داستان ہے—جب انسان وہی بن جائے جسے وہ ہمیشہ تلاش کرتا رہا۔ یہ اندرونی طاقت کو دریافت کرنے کا لمحہ ہے، اور یہی اصل خودی کی پہچان ہے۔
۲۵۔ جب میں نے تمہارا نام آخری بار پکارا
یہ باب ایک خاموش وداع کی داستان ہے—ایک ایسا لمحہ جب کوئی نام آخری بار لبوں پر آتا ہے۔ اس لمحے میں نرمی بھی ہے اور شدت بھی، اور ساتھ ہی ایک خاموش تسلیم جو دل کو سکون عطا کرتی ہے۔
۲۶۔ اب بھی محبت کرتا ہوں، مگر اب خود سے
یہ باب محبت کو نئے مفہوم میں ڈھالتا ہے۔ جب محبت کا رخ باہر سے اندر کی جانب مڑتا ہے۔ جب انسان خود سے محبت کرنا سیکھ جائے، تو پھر دنیا کا کوئی زخم اسے ویسا نہیں چبھتا۔
۲۷۔ تم نے مجھے کھو دیا جب میں نے خود سے محبت کرنا سیکھا
یہ ایک طاقتور سچ ہے: جس لمحے انسان خود سے محبت کرنا سیکھ لیتا ہے، وہ ہر ناتمام توقع سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ اُس روح کی آزادی کا اعلان ہے جو کبھی کسی اور کے لیے تڑپتی تھی۔
۲۸۔ اب میں منتظر نہیں—نہ تمہاری، نہ کسی اختتام کی
یہ مکمل آزادی کی علامت ہے۔ نہ کوئی انتظار، نہ کوئی سوال۔ جب انسان خود میں مکمل ہو جائے، تو سکون اُس کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ باب ایک انقلابی سکون اور خودانحصاری کی تصویر پیش کرتا ہے۔
۲۹۔ تم ایک سبق تھے، جو مجھے سختی سے سیکھنا پڑا
یہ باب سکھاتا ہے کہ ہر شخص ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے—خواہ وہ زخم کی صورت میں ہو یا حکمت کی۔ یہ ایک گہرا اور اکثر تکلیف دہ ارتقائی عمل ہے جو ہر دل شکستگی کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔
۳۰۔ میں اُس محبت سے آگے بڑھ گیا جو میرے ساتھ نہ بڑھ سکی
یہ باب بتاتا ہے کہ محبت کبھی اپنی ذات کو کھونے کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے۔ جب کوئی محبت تمہارے ساتھ پروان نہ چڑھے، تو تم خود کو کھوتے نہیں، بلکہ خود کو پاتے ہو۔
۳۱۔ تمہارے بعد میں اپنی ذات میں گھر بن گیا
یہ آخری باب ایک روحانی انقلاب کی گواہی ہے—جب انسان اپنی روح میں ہی گھر تلاش کر لیتا ہے۔ یہ مکمل خودی کا اعلان ہے، جو ہر رنگ کی محبت کو جھیل کر نکھر کر سامنے آتی ہے۔
الوداع کی ان کہی مرثیہ محض ایک کتاب نہیں—بلکہ ایک خاموش چیخ ہے۔ ایسی چیخ جو جذبات کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے؛ وہ لمحے جو وقت کے بے رحم دھارے میں کھو گئے؛ وہ الفاظ جو کانپتے ہونٹوں کی دہلیز پر دم توڑ گئے۔
یہ عندلیب گل کا تخلیق کردہ ایک درد بھرا رقص ہے—ایک ایسی خامشی کی سمفنی جو ہر صفحے پر دل کی دھڑکن کی مانند گونجتی ہے۔ اس میں جذبات کی روانی ایسے بہتی ہے جیسے کوئی پرسوز دریا—یادوں کے قطرے، پچھتاووں کے طوفان، اور ادھورے خوابوں کی بارش اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہو۔
یہ کتاب ان لمحوں کو آواز بخشتی ہے جو کبھی مکمل نہ ہو سکے، ان باتوں کو زبان دیتی ہے جو کبھی کسی کے کان تک نہ پہنچ سکیں۔ عندلیب گل نے اس شاہکار کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ خاموشی بھی ایک زبان رکھتی ہے—اور بعض اوقات وہی زبان سب سے بلند، سب سے گہری اور سب سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
ادب کے افق پر یہ کتاب ایک درخشاں ستارے کی مانند ابھری ہے۔۔۔ایسا نور جو صرف آنکھوں کو نہیں، بلکہ روح کو بھی منور کرتا ہے۔ اس کا اسلوب اپنی نرمی میں بے مثال ہے، سادگی میں ایک وقار پنہاں ہے، اور خیال کی گہرائی اسے فن پاروں کی صف میں ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ اس کتاب کی قیمت محض 449 روپے ہے، جو Amazon Kindle پر بھارت میں دستیاب ہے، جب کہ اس کا طباعتی ایڈیشن امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی سمیت پندرہ سے زائد ممالک میں دستیاب ہے۔۔مگر یہ کتاب فیالحال صرف انگریزی زبان میں ہی دستیاب ہے۔
میں وانی عرفات اپنی دل کی گہرائیوں سے اپنے عزیز دوست عندلیب گل کو اس شاندار اور پُراثر ادبی آغاز پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اگرچہ یہ ان کے تخلیقی سفر کی پہلی سیڑھی ہے، لیکن اس میں اُن کی فکری وسعت، جذبات کی شدت، اور قلم کی پختگی نمایاں طور پر جھلکتی ہے۔

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں

تازہ ترین خبریں

وزارت داخلہ کی جانب سے رام بہادر رائے کو پدم بھوشن ایوارڈ پیش

بلال بشیر بٹ نئی دہلی/ جنگ نیوز/معروف صحافی اور اندرا...

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

تازہ ترین خبریں

وزارت داخلہ کی جانب سے رام بہادر رائے کو پدم بھوشن ایوارڈ پیش

بلال بشیر بٹ نئی دہلی/ جنگ نیوز/معروف صحافی اور اندرا...

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

عندلیب گل کی تصنیف The Elegy of Unsaid Goodbyes پر بصیرت افروز ادبی جائزہ


محمد عرفات وانی

تاریخ کے عظیم ترین ادبی اذہان ہمیشہ انسانی جذبات کی ان گہرائیوں میں اترے ہیں جہاں پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اُن کے الفاظ نے محبت کی لطافت، غم کے بوجھ، اور تنہائی کی کرب ناک تلخی کو اس انداز میں قلم بند کیا کہ وہ محسوسات جو زبان سے ادا نہیں ہو سکتے، تحریر کی صورت میں دلوں تک اتر گئے۔ یہ تخلیقات محض کہانیاں نہیں ہوتیں، بلکہ وہ آئینے ہیں جو انسانی روح کے ان گوشوں کی عکاسی کرتے ہیں جہاں صرف خاموشی بستی ہے۔
عہد رفتہ کی لازوال داستانوں میں "لیلیٰ مجنوں” کی محبت، جسے قطیؔل شفائی نے اپنے اشعار میں امر کر دیا، "سلیم و انارکلی” کا المیہ جس میں عشق کی شدت اور جدائی کی تپش ہے، اور وادی کشمیر کے تناظر میں، راشد جمشید کا نام ایک ایسے شاعر کے طور پر ابھرتا ہے جس نے عشق کو کشمیر کی فطرت سے جوڑ کر ایک نئی جمالیات تخلیق کی۔

ان عظیم فنکاروں نے اپنے فن کی باریکیوں سے محبت کو اس کی اصل، خالص اور تکلیف دہ صورتوں میں پیش کیا۔ انہوں نے نہ صرف عشق کی خوشبو بلکہ اس کے درد، فراق، اور تڑپ کو اس شدت سے محسوس کرایا کہ قاری کو اپنی گم شدہ یادیں پھر سے زندہ ہوتی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ اور اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے، ترال کے ایک نوجوان عندلیب گل نے ایک دل دہلا دینے والا بیانیہ رقم کیا ہے، جس کا عنوان ہے: "The Elegy of Unsaid Goodbyes”۔

"The Elegy of Unsaid Goodbyes” محض ایک کتاب نہیں، بلکہ وہ خاموش آہ ہے جو ان لفظوں کا بدل ہے جو کبھی کہے ہی نہ جا سکے؛ وہ ہر دھڑکن جو سینے میں دبی رہی، وہ ہر درد جو الفاظ سے پرے تھا۔ یہ کتاب ان خاموشیوں کی ترجمان ہے جو اکثر لفظوں سے زیادہ گونج رکھتی ہیں، ان لمحوں کی شاہد ہے جہاں عشق اور درد ایک دوسرے سے لپٹ جاتے ہیں۔ ہر صفحہ ایک گہری فکری کیفیت سے لبریز ہے، جو قاری کو صرف پڑھنے پر نہیں بلکہ محسوس کرنے، ڈوبنے اور ہر جذبے کو جینے کی دعوت دیتا ہے۔

عندلیب گل اگرچہ عمر میں نوجوان ہیں، مگر ان کی تحریر میں جو بلوغت اور فکری گہرائی ہے، وہ بڑے بڑے اہل قلم کے ہاں کم ہی نظر آتی ہے۔ ان کا مشاہدہ، جذبات کی حقیقی عکاسی، اور محبت و فراق کے نقوش کو حقیقت کا رنگ دینا، "The Elegy of Unsaid Goodbyes” کو ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ یہ کتاب اس سچائی کو ثابت کرتی ہے کہ عشق، درد اور جدائی جیسے موضوعات صرف عمر یا تجربے سے وابستہ نہیں، بلکہ وہ جذبات ہیں جو ہر دل میں ایک ہی طرح سے دھڑکتے ہیں۔
یہ کتاب کے 31 ابواب، ہر ایک ایک منفرد جذبے اور جداگانہ داستان کا آئینہ ہیں۔ یہاں ہم ان ابواب پر مفصل روشنی ڈالیں گے تاکہ اس کتاب کی گہرائی اور حقیقت کو حقیقی معنوں میں محسوس کیا جا سکے۔
1. شگوفۂ محبت
یہ باب محبت کی معصوم ابتدا کو بیان کرتا ہے—جیسے بہار کا پہلا پھول، یا دل کی پہلی دھڑکن۔
محبت یہاں نئی ہے، نکھری ہوئی، بے داغ، اور چمکدار۔
پہلی محبت خوابوں سے بھی زیادہ حسین ہوتی ہے—شاید اس لیے کہ وہ حقیقت بننے کے لیے نہیں ہوتی…
2. جب باتیں کم ہونے لگیں
یہ باب اس خاموشی کو بیان کرتا ہے جو آہستہ آہستہ رشتوں میں در آتی ہے۔
جب دل ایک دوسرے سے دور ہونے لگتے ہیں، تو الفاظ اپنا رنگ کھو بیٹھتے ہیں، اور ایک پرجوش محبت خامشی کی نذر ہو جاتی ہے۔
3. جب میں نے تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھا
یہ وہ لمحہ ہے جب دل بے آواز ٹوٹتا ہے۔ الفاظ گم ہو جاتے ہیں، اور جذبات بے بسی میں ڈھل جاتے ہیں۔
تمہیں کسی اور کے ساتھ دیکھ کر—میرا دل چکناچور ہو گیا، اور میری آنکھیں خاموش ہو گئیں۔ وہ درد لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔
4. وہ لڑکی جو تم جیسی لگتی تھی، مگر تم نہ تھی
یہ باب یاد اور حقیقت کے درمیان دھندلا سا فرق دکھاتا ہے۔
محبت جان پہچانی صورتوں میں نظر آتی ہے، مگر دل کی کسک وہی رہتی ہے—ان کہی، ادھوری۔
5. وہ باتیں جو کہنا چاہتا تھا، مگر تمہارے جانے سے پہلے نہ کہہ سکا
پشیمانیوں کی ایک خاموش گیلری۔
یہ باب اُن الفاظ کو زبان دیتا ہے جو دل میں رہ گئے، اور اب صرف خاموشیوں میں گونجتے ہیں—”کاش” کی بازگشت بن کر۔

6. فاصلے—دلوں کے درمیان کی دوری
یہ صرف جسمانی جدائی کی کہانی نہیں، بلکہ دو دلوں کے بیچ بڑھتی ہوئی خلا کی تصویر ہے۔
یہ محبت میں فاصلے کی خامشی اور اذیت کو نمایاں کرتا ہے۔

7. اگر تمہیں کبھی میری یاد آئے… تو مت آنا
یہ خودداری اور ضد کا ایک باب ہے۔ دل ترستا ہے، مگر انا اسے ظاہر نہیں ہونے دیتی۔
یہ کہانی تڑپ اور خود احترام کے درمیان کشمکش کی ہے۔
8. جس رات میں پہلی بار تمہیں یاد کیے بغیر سویا
ایک تلخ مگر سکون بھرا سنگِ میل۔
یہ شفا کی جانب پہلا قدم ہے، اگرچہ اس کے دامن میں ایک ہلکی سی اداسی بھی چھپی ہوتی ہے—کچھ خوبصورت کے اختتام کی اداسی۔
کبھی کبھی، سکون درد کے بعد آتا ہے—جیسے ہر رات کے بعد روشنی…
9. تم نے مجھے آہستہ آہستہ بھلایا، میں نے تمہیں ایک ہی لمحے میں یاد کیا
یہ باب اُس بے رحمی کا عکس ہے جب کوئی ہمیں رفتہ رفتہ فراموش کرتا ہے،
جبکہ اُن کی یادیں ہمیں اچانک اور مکمل طور پر گھیر لیتی ہیں—زخمی کر دینے والی شدت سے۔
10. جس دن مجھے یہ احساس ہوا کہ میں بھی محبت کے قابل ہوں
یہ خود آگہی کا لمحہ ہے۔
یہ خود سے محبت کے جنم کی کہانی ہے، جب ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم بھی اسی محبت کے مستحق ہیں جو کبھی ہم نے دوسروں کو دی تھی۔
جب ہم خود سے محبت کرنا سیکھ لیتے ہیں، تو ہم سب سے عظیم محبت کو پا لیتے ہیں۔
۱۱۔ میں تنہا محبت کرتا رہا
یہ باب یکطرفہ محبت کی لطیف مگر پُراثر تصویر کشی کرتا ہے—ایسی چاہت جہاں خواب تو سانجھے تھے، مگر دل صرف ایک ہی دھڑکتا رہا۔ خواہشیں بےجواب رہ گئیں، اور جذبات بےقراری میں گھلتے رہے۔
۱۲۔ اختتام کبھی نہ آیا، مگر میں آ گیا
یہ باب اس سچائی کو بیان کرتا ہے کہ ہر زخم کا مرہم "اختتام” نہیں ہوتا۔ کچھ دروازے کبھی دوبارہ نہیں کھلتے، مگر زندگی پھر بھی ہمیں سکھا دیتی ہے کہ سوالوں کے بغیر بھی جینا ممکن ہے۔
۱۳۔ میں چاہتا تھا کہ تم رک جاؤ، مگر مجھے خود کی زیادہ ضرورت تھی
یہ ایک دردناک مگر لازمی حقیقت ہے—محبت قربانی مانگتی ہے، لیکن خود کو کھونے سے بچانا بھی ضروری ہے۔ یہ باب اندرونی کشمکش اور خودشناسی کا عکاس ہے۔
۱۴۔ اب تمہاری کمی محسوس نہیں ہوتی، مگر سب کچھ یاد ہے
جذبات مدھم ہو سکتے ہیں، مگر یادیں نہیں مٹتیں۔ یہ باب اس احساس کو اجاگر کرتا ہے کہ ہم آگے بڑھ جاتے ہیں، مگر ماضی کی کچھ تصویریں دل کے کونے میں ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔
۱۵۔ کچھ الوداعی کلمات زبان پر نہیں آتے
خاموشی میں چھپی ایک الوداعی صدا—یہ باب اُن لمحوں کی بات کرتا ہے جہاں زبان خاموش ہوتی ہے، مگر آنکھیں سب کچھ کہہ جاتی ہیں، اور دل ہر لمحہ یاد رکھتا ہے۔
۱۶۔ وہ میرے بغیر آگے بڑھ گئی — اور میں دیکھتا رہا
یہ ایک خاموش شکست کی کہانی ہے—کسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے کسی اور کی دنیا بساتے دیکھنا، اور اندر ہی اندر ٹوٹتے جانا۔
۱۷۔ شفا کا مطلب آگے بڑھنا نہیں، بلکہ خود کو پھر سے پانا تھا
یہ باب دکھاتا ہے کہ اصل شفا بھول جانے میں نہیں، بلکہ خود سے دوبارہ جُڑنے میں ہے۔ یہ خودی کی واپسی کا خاموش سفر ہے۔
۱۸۔ میری وہ صورتیں جو تم سے محبت کرتی تھیں
محبت ہمیں بدل دیتی ہے۔ یہ باب ان روپوں کی بات کرتا ہے جو ہم کسی کی محبت میں اختیار کرتے ہیں—اور پھر جب وہ محبت چھوٹ جائے، ہم خود کو دوبارہ تلاش کرتے ہیں۔
۱۹۔ مجھے یوں فراموش کیا جانا نہیں چاہیے تھا
یہ دل کی ایک صدا ہے—ایک گہری، بےآواز فریاد کہ محبت میں بھول جانا آسان نہیں ہوتا، اور ہر دل اس قابل ہے کہ اسے عزت کے ساتھ یاد رکھا جائے۔
۲۰۔ وہ لمحہ جب میں نے "سکون” کو "اختتام” پر ترجیح دی
یہ باب بلوغت اور ادراک کی کہانی ہے—جہاں ہم وضاحتوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیتے ہیں اور دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ہر سوال کا جواب ضروری نہیں، کبھی کبھار صرف "سکون” ہی کافی ہوتا ہے۔
۲۱۔ تم میرے ہمیشہ نہیں، صرف میرے قریب تھے
یہ باب اُس درد کی عکاسی کرتا ہے جب کوئی بہت قریب ہو مگر ہمیشہ کے لیے نہ ہو سکے۔ یہ ایک ادھوری محبت کی اذیت ناک کہانی ہے—جہاں کسی کی موجودگی تو حقیقت بن گئی، مگر مکمل نہ ہو سکی۔
۲۲۔ تمہیں کھونے کے بعد میں نے کیا سیکھا
یہ باب ایک غور و فکر اور روح کی روشنی کی داستان ہے۔ یہاں انسان زخم خوردہ دل سے اپنے اصل کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ سکھاتا ہے کہ ہر نقصان میں ایک چھپی ہوئی حکمت ہوتی ہے۔

۲۳۔ تم نے مجھے یوں چھوڑا جیسے میں کچھ بھی نہ تھا، اور میں نے جانا کہ میں سب کچھ تھا
یہ خودشناسی کا اعلان ہے۔ جب کوئی چھوڑ جاتا ہے اور پھر بھی انسان اپنے آپ کو قیمتی محسوس کرتا ہے۔ اس باب میں یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کسی کے جانے سے ہماری قدر کم نہیں ہوتی۔
۲۴۔ میں کیسے وہ شخص بنا جس کی مجھے ہمیشہ ضرورت تھی
یہ خودسازی کی ایک حسین داستان ہے—جب انسان وہی بن جائے جسے وہ ہمیشہ تلاش کرتا رہا۔ یہ اندرونی طاقت کو دریافت کرنے کا لمحہ ہے، اور یہی اصل خودی کی پہچان ہے۔
۲۵۔ جب میں نے تمہارا نام آخری بار پکارا
یہ باب ایک خاموش وداع کی داستان ہے—ایک ایسا لمحہ جب کوئی نام آخری بار لبوں پر آتا ہے۔ اس لمحے میں نرمی بھی ہے اور شدت بھی، اور ساتھ ہی ایک خاموش تسلیم جو دل کو سکون عطا کرتی ہے۔
۲۶۔ اب بھی محبت کرتا ہوں، مگر اب خود سے
یہ باب محبت کو نئے مفہوم میں ڈھالتا ہے۔ جب محبت کا رخ باہر سے اندر کی جانب مڑتا ہے۔ جب انسان خود سے محبت کرنا سیکھ جائے، تو پھر دنیا کا کوئی زخم اسے ویسا نہیں چبھتا۔
۲۷۔ تم نے مجھے کھو دیا جب میں نے خود سے محبت کرنا سیکھا
یہ ایک طاقتور سچ ہے: جس لمحے انسان خود سے محبت کرنا سیکھ لیتا ہے، وہ ہر ناتمام توقع سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ اُس روح کی آزادی کا اعلان ہے جو کبھی کسی اور کے لیے تڑپتی تھی۔
۲۸۔ اب میں منتظر نہیں—نہ تمہاری، نہ کسی اختتام کی
یہ مکمل آزادی کی علامت ہے۔ نہ کوئی انتظار، نہ کوئی سوال۔ جب انسان خود میں مکمل ہو جائے، تو سکون اُس کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہ باب ایک انقلابی سکون اور خودانحصاری کی تصویر پیش کرتا ہے۔
۲۹۔ تم ایک سبق تھے، جو مجھے سختی سے سیکھنا پڑا
یہ باب سکھاتا ہے کہ ہر شخص ہمیں کچھ نہ کچھ سکھاتا ہے—خواہ وہ زخم کی صورت میں ہو یا حکمت کی۔ یہ ایک گہرا اور اکثر تکلیف دہ ارتقائی عمل ہے جو ہر دل شکستگی کے پیچھے چھپا ہوتا ہے۔
۳۰۔ میں اُس محبت سے آگے بڑھ گیا جو میرے ساتھ نہ بڑھ سکی
یہ باب بتاتا ہے کہ محبت کبھی اپنی ذات کو کھونے کی قیمت پر نہیں ہونی چاہیے۔ جب کوئی محبت تمہارے ساتھ پروان نہ چڑھے، تو تم خود کو کھوتے نہیں، بلکہ خود کو پاتے ہو۔
۳۱۔ تمہارے بعد میں اپنی ذات میں گھر بن گیا
یہ آخری باب ایک روحانی انقلاب کی گواہی ہے—جب انسان اپنی روح میں ہی گھر تلاش کر لیتا ہے۔ یہ مکمل خودی کا اعلان ہے، جو ہر رنگ کی محبت کو جھیل کر نکھر کر سامنے آتی ہے۔
الوداع کی ان کہی مرثیہ محض ایک کتاب نہیں—بلکہ ایک خاموش چیخ ہے۔ ایسی چیخ جو جذبات کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے؛ وہ لمحے جو وقت کے بے رحم دھارے میں کھو گئے؛ وہ الفاظ جو کانپتے ہونٹوں کی دہلیز پر دم توڑ گئے۔
یہ عندلیب گل کا تخلیق کردہ ایک درد بھرا رقص ہے—ایک ایسی خامشی کی سمفنی جو ہر صفحے پر دل کی دھڑکن کی مانند گونجتی ہے۔ اس میں جذبات کی روانی ایسے بہتی ہے جیسے کوئی پرسوز دریا—یادوں کے قطرے، پچھتاووں کے طوفان، اور ادھورے خوابوں کی بارش اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہو۔
یہ کتاب ان لمحوں کو آواز بخشتی ہے جو کبھی مکمل نہ ہو سکے، ان باتوں کو زبان دیتی ہے جو کبھی کسی کے کان تک نہ پہنچ سکیں۔ عندلیب گل نے اس شاہکار کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ خاموشی بھی ایک زبان رکھتی ہے—اور بعض اوقات وہی زبان سب سے بلند، سب سے گہری اور سب سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
ادب کے افق پر یہ کتاب ایک درخشاں ستارے کی مانند ابھری ہے۔۔۔ایسا نور جو صرف آنکھوں کو نہیں، بلکہ روح کو بھی منور کرتا ہے۔ اس کا اسلوب اپنی نرمی میں بے مثال ہے، سادگی میں ایک وقار پنہاں ہے، اور خیال کی گہرائی اسے فن پاروں کی صف میں ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔ اس کتاب کی قیمت محض 449 روپے ہے، جو Amazon Kindle پر بھارت میں دستیاب ہے، جب کہ اس کا طباعتی ایڈیشن امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی سمیت پندرہ سے زائد ممالک میں دستیاب ہے۔۔مگر یہ کتاب فیالحال صرف انگریزی زبان میں ہی دستیاب ہے۔
میں وانی عرفات اپنی دل کی گہرائیوں سے اپنے عزیز دوست عندلیب گل کو اس شاندار اور پُراثر ادبی آغاز پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اگرچہ یہ ان کے تخلیقی سفر کی پہلی سیڑھی ہے، لیکن اس میں اُن کی فکری وسعت، جذبات کی شدت، اور قلم کی پختگی نمایاں طور پر جھلکتی ہے۔

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں