جنگ نیوز ڈیسک
سرینگر/ترک سیب کے بائیکاٹ نے وادی کشمیر کے سیب کاشتکاروں کے لیے نئی امید پیدا کر دی ہے، جو گزشتہ کئی برسوں سے سستے درآمدی پھلوں کے باعث مالی بحران کا شکار تھے۔
کشمیر، جو ملک کا سب سے بڑا سیب پیدا کرنے والا علاقہ ہے، طویل عرصے سے ترکی، ایران اور دیگر ممالک سے سستے درآمدی سیبوں سے مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ سیب مقامی فصل سے پہلے مارکیٹ میں آ جاتے ہیں، جس سے مقامی کاشتکاروں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
وادی کے فروٹ گروورز یونین کے صدر بشیر احمد بشیر نے امید ظاہر کی کہ ترک سیب کی درآمد پر روک مقامی کاشتکاروں کو بہتر قیمتیں دلانے میں مدد دے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ترک سیب کی درآمد محدود رہی ہے، لیکن ان کی موجودگی بھی مقامی مارکیٹ پر منفی اثر ڈالتی ہے۔
کشمیر بھر کے کاشتکاروں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ایران، امریکہ اور افغانستان جیسے ممالک سے بھی سیب کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے تاکہ مقامی کسانوں کو منصفانہ معاوضہ مل سکے۔
کاشتکاروں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ، ایران، ترکی اور افغانستان سے درآمد ہونے والے سیبوں پر سو فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد کی جائے، تاکہ مقامی صنعت کو تحفظ حاصل ہو۔ تاہم، ان میں تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر امریکہ سے درآمدی محصولات میں مزید نرمی کی گئی تو مقامی مارکیٹ سستے امریکی سیبوں سے بھر جائے گی اور کشمیری کاشتکار مزید نقصان میں چلے جائیں گے۔
جموں و کشمیر سالانہ 20 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد سیب پیدا کرتا ہے، جو تقریباً سات لاکھ خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ ہے اور ملک کی باغبانی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔