اسلامی نظریۂ تعلیم نسواں: توازن، تربیت اور حدود

مسعود محبوب خان

تعلیم لڑکیوں کا بنیادی حق ہے، اور اسلام نے اسے عزّت و وقار کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔ اسلام وہ پہلا نظامِ حیات ہے جس نے عورت کو علم حاصل کرنے کی اجازت دی، اور یہ واضح کر دیا کہ علم مرد و زن دونوں کے لیے زینت ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد—”طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم”—مرد و عورت سب کو شامل کرتا ہے۔ جب آپؐ نے فرمایا کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، تو یہ عورت کی تعلیم کو الٰہی فریضہ قرار دیتا ہے۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ عورت نے جب اس فریضے کو سمجھا، تو اس نے ایسا کردار ادا کیا کہ زمانہ حیران رہ گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ، جن کا علم، فہم اور فصاحت صحابہ کرامؓ کے لیے مشعلِ راہ تھی، آج بھی علمی دنیا میں روشن ہیں۔ صحابہ کرامؓ جب دینی مسائل میں الجھتے تو حضرت عائشہؓ سے رجوع کرتے۔ انہوں نے علم کو اخلاق، گفتار اور حکمت کے ساتھ نسلوں تک منتقل کیا۔
حضرت فاطمہ الزہراؓ علم، زہد اور بصیرت کا پیکر تھیں۔ ان کی تربیت نے امت کو امام حسن و حسینؓ جیسے جواں مرد دیے۔ اسلامی تاریخ میں بے شمار خواتین محدثہ، فقیہہ، معلمہ اور مفکرہ کی حیثیت سے نظر آتی ہیں۔ امّ درداء، رابعہ بصری، امّ سلمہ، امّ ورقہ وغیرہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام نے عورت کو پردے میں رکھ کر محدود نہیں کیا بلکہ علم سے سرفراز کیا۔
اسلام کے نزدیک عورت ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں تمدن پروان چڑھتا ہے۔ باشعور ماں صرف لوریاں نہیں دیتی، بلکہ نسلوں کو شعور، فہم اور بصیرت عطا کرتی ہے۔ اسلام عورت کو تعلیم کا حق دیتا ہے تاکہ ایک روشن نسل اور صالح معاشرہ وجود میں آئے۔ ہمیں چاہیے کہ اس نعمت کی قدر کریں، اپنی بیٹیوں کو علم سے آراستہ کریں، اس یقین کے ساتھ کہ: "جو ماں علم و حیاء کے نور سے منور ہو، وہی امت کی معمار ہے”۔
تعلیم کا مقصد
اگر تعلیم صرف روزگار یا معاشرتی مقام کا ذریعہ ہو، تو یہ ایک محدود سوچ ہے۔ اسلامی تعلیم کا مقصد ڈگری یا نوکری نہیں، بلکہ روح کی آبیاری، کردار کی تعمیر، اور ربّ کی پہچان ہے۔ تعلیم انسان کو خودی، غیرت، حیا، صداقت اور اخلاص عطا کرتی ہے۔
ایک مسلمان خاتون کے لیے تعلیم کا مفہوم نوکری یا اسناد تک محدود نہیں۔ علم وقار، کردار کی مضبوطی، فیصلے کی حکمت اور ایمان کی پختگی دیتا ہے۔ تعلیم جو لڑکی کو صرف فیشن یا نمائش کا ذریعہ بنائے، اس کی اصل عظمت سے محروم کر دیتی ہے۔ ایسی تعلیم جو عورت کو پیکرِ حیا، نمونۂ وقار، اور مینارِ بصیرت بنائے، وہی اسلامی تعلیم ہے۔ کیونکہ "علم وہی جو دل کو نرم کرے، زبان کو سچ کی عادت دے، نگاہ کو حیاء کی چمک دے، اور عمل کو صداقت کی راہ پر ڈال دے”۔
تعلیم کو روحانی ارتقاء، اخلاقی بلندی، اور معاشرتی خدمت کا ذریعہ بنائیں۔ تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ یہ علم نور بھی ہے، رہنما بھی، اور عبادت کا در بھی۔
جدید تعلیم اور تہذیبی کشمکش
جدید تعلیم کے ساتھ آج کی مسلمان لڑکی کو تہذیبی کشمکش کا سامنا ہے۔ یہ صرف خیالات کی جنگ نہیں، بلکہ شناخت، اقدار اور وقار کی جنگ ہے۔ آج تعلیمی ادارے علم کے ساتھ مغربی طرزِ فکر اور لبرل نظریات کے نمائندہ بن چکے ہیں، جہاں حدود اور حیا کو آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔
ایک معصوم لڑکی جب ایسے اداروں میں قدم رکھتی ہے تو فیشن، اظہارِ رائے، اور نام نہاد آزادی کے اثر میں آ کر اپنی اصل پہچان کھو بیٹھتی ہے۔ تعلیم کا مقصد کردار سازی کی بجائے شہرت اور چمک دمک بن جاتا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ مسلمان لڑکی علم کو صرف اس وقت "نور” سمجھے جب وہ اللّٰہ کی رضا، کردار کی تعمیر اور عزتِ نفس کی حفاظت کا ذریعہ ہو۔
ایسی تعلیم چاہیے جو اللّٰہ کی یاد سے دلوں کو زندہ رکھے، حیاء کی چمک دے، اور فہم و حکمت سے روشناس کرے۔ علم جو اسلامی تہذیب کا محافظ ہو، نہ کہ اس کا دشمن۔ جب تعلیم دینی شناخت کو مٹا دے تو وہ علم نہیں، آزمائش ہے۔
عورت کا اصل مقام — عزّت اور وقار کا محل
عورت کا مقام کوئی اسٹیج، اسکرین یا بازار نہیں، بلکہ خاندان ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت کی علامت عورت کے کردار کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔ جب عورت دین، سلیقۂ زندگی اور کردار سازی سے آراستہ ہو تو اس کی گود نسلوں کو سنوارتی ہے۔
ایسی عورت نہ صرف گھر بلکہ معاشرے کو مہذب، متوازن اور باوقار بناتی ہے۔ اسلام نے عورت کو پردہ دیا، مگر اسے چھپایا نہیں، بلکہ عزّت کا موتی بنا کر خاندان کی روشنی بنایا۔ جو عورت دین کے علم سے مزین ہو، اپنے فرائض کو فخر سے ادا کرے، وہ ملت کی بنیاد اور نسلوں کی تربیت گاہ ہوتی ہے۔
عورت کا اصل مقام وہی ہے جہاں محبت، حیا اور کردار کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ جب عورت اپنے مقام کو پہچان لے، تو وہ خدا کی نگاہ میں قیمتی بن جاتی ہے۔
آزادی اور فتنہ کا فرق — شعور و حیا کی روشنی میں
آزادی اگر شعور، حیاء اور دینی بصیرت سے خالی ہو، تو فتنہ اور تباہی کا دروازہ بن سکتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تعلیم، کام اور خودمختاری دی، مگر حدود کے ساتھ۔ اسلام کی دی ہوئی آزادی عزّت اور تحفظ کی ضمانت ہے۔
اسلام عورت کو تعلیم یا کام سے نہیں روکتا، بلکہ حضرت خدیجہؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسلام کو خوف ہے بےراہ روی اور بےپردگی سے۔ جب آزادی شرعی اصولوں اور حیاء کے دائرے میں ہو، تو وہ نکھارتی ہے، بصورت دیگر وہ بگاڑ کی بنیاد بنتی ہے۔
آج عورت کو آزادی کے نام پر ایسی راہیں دکھائی جا رہی ہیں جو فریب اور گمراہی کا باعث ہیں۔ وہ آزادی جو حیاء، وقار، اور پاکیزگی چھین لے، وہ آزادی نہیں، فتنہ ہے۔ عورت جب شریعت کی حدود کو اپنی طاقت سمجھے، تو وہی حقیقی عزّت اور تحفظ حاصل کرے گی۔
آزادی کو خواہشات کے سپرد نہیں، شریعت کے تابع رکھنا چاہیے۔ تبھی وہ روشنی بنے گی، ورنہ شعلہ جو سب کچھ جلا دے۔
ززز

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں

تازہ ترین خبریں

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

وادی کے جھیلوں کی چمک، اور فضاؤں کی مہک آپ کو بلا رہی ہے

جنگ نیوز ڈیسک سرینگر//جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی ایڈیشنل...

تازہ ترین خبریں

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

وادی کے جھیلوں کی چمک، اور فضاؤں کی مہک آپ کو بلا رہی ہے

جنگ نیوز ڈیسک سرینگر//جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی ایڈیشنل...

اسلامی نظریۂ تعلیم نسواں: توازن، تربیت اور حدود

مسعود محبوب خان

تعلیم لڑکیوں کا بنیادی حق ہے، اور اسلام نے اسے عزّت و وقار کے ساتھ تسلیم کیا ہے۔ اسلام وہ پہلا نظامِ حیات ہے جس نے عورت کو علم حاصل کرنے کی اجازت دی، اور یہ واضح کر دیا کہ علم مرد و زن دونوں کے لیے زینت ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد—”طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم”—مرد و عورت سب کو شامل کرتا ہے۔ جب آپؐ نے فرمایا کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، تو یہ عورت کی تعلیم کو الٰہی فریضہ قرار دیتا ہے۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ عورت نے جب اس فریضے کو سمجھا، تو اس نے ایسا کردار ادا کیا کہ زمانہ حیران رہ گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ، جن کا علم، فہم اور فصاحت صحابہ کرامؓ کے لیے مشعلِ راہ تھی، آج بھی علمی دنیا میں روشن ہیں۔ صحابہ کرامؓ جب دینی مسائل میں الجھتے تو حضرت عائشہؓ سے رجوع کرتے۔ انہوں نے علم کو اخلاق، گفتار اور حکمت کے ساتھ نسلوں تک منتقل کیا۔
حضرت فاطمہ الزہراؓ علم، زہد اور بصیرت کا پیکر تھیں۔ ان کی تربیت نے امت کو امام حسن و حسینؓ جیسے جواں مرد دیے۔ اسلامی تاریخ میں بے شمار خواتین محدثہ، فقیہہ، معلمہ اور مفکرہ کی حیثیت سے نظر آتی ہیں۔ امّ درداء، رابعہ بصری، امّ سلمہ، امّ ورقہ وغیرہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام نے عورت کو پردے میں رکھ کر محدود نہیں کیا بلکہ علم سے سرفراز کیا۔
اسلام کے نزدیک عورت ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں تمدن پروان چڑھتا ہے۔ باشعور ماں صرف لوریاں نہیں دیتی، بلکہ نسلوں کو شعور، فہم اور بصیرت عطا کرتی ہے۔ اسلام عورت کو تعلیم کا حق دیتا ہے تاکہ ایک روشن نسل اور صالح معاشرہ وجود میں آئے۔ ہمیں چاہیے کہ اس نعمت کی قدر کریں، اپنی بیٹیوں کو علم سے آراستہ کریں، اس یقین کے ساتھ کہ: "جو ماں علم و حیاء کے نور سے منور ہو، وہی امت کی معمار ہے”۔
تعلیم کا مقصد
اگر تعلیم صرف روزگار یا معاشرتی مقام کا ذریعہ ہو، تو یہ ایک محدود سوچ ہے۔ اسلامی تعلیم کا مقصد ڈگری یا نوکری نہیں، بلکہ روح کی آبیاری، کردار کی تعمیر، اور ربّ کی پہچان ہے۔ تعلیم انسان کو خودی، غیرت، حیا، صداقت اور اخلاص عطا کرتی ہے۔
ایک مسلمان خاتون کے لیے تعلیم کا مفہوم نوکری یا اسناد تک محدود نہیں۔ علم وقار، کردار کی مضبوطی، فیصلے کی حکمت اور ایمان کی پختگی دیتا ہے۔ تعلیم جو لڑکی کو صرف فیشن یا نمائش کا ذریعہ بنائے، اس کی اصل عظمت سے محروم کر دیتی ہے۔ ایسی تعلیم جو عورت کو پیکرِ حیا، نمونۂ وقار، اور مینارِ بصیرت بنائے، وہی اسلامی تعلیم ہے۔ کیونکہ "علم وہی جو دل کو نرم کرے، زبان کو سچ کی عادت دے، نگاہ کو حیاء کی چمک دے، اور عمل کو صداقت کی راہ پر ڈال دے”۔
تعلیم کو روحانی ارتقاء، اخلاقی بلندی، اور معاشرتی خدمت کا ذریعہ بنائیں۔ تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ یہ علم نور بھی ہے، رہنما بھی، اور عبادت کا در بھی۔
جدید تعلیم اور تہذیبی کشمکش
جدید تعلیم کے ساتھ آج کی مسلمان لڑکی کو تہذیبی کشمکش کا سامنا ہے۔ یہ صرف خیالات کی جنگ نہیں، بلکہ شناخت، اقدار اور وقار کی جنگ ہے۔ آج تعلیمی ادارے علم کے ساتھ مغربی طرزِ فکر اور لبرل نظریات کے نمائندہ بن چکے ہیں، جہاں حدود اور حیا کو آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔
ایک معصوم لڑکی جب ایسے اداروں میں قدم رکھتی ہے تو فیشن، اظہارِ رائے، اور نام نہاد آزادی کے اثر میں آ کر اپنی اصل پہچان کھو بیٹھتی ہے۔ تعلیم کا مقصد کردار سازی کی بجائے شہرت اور چمک دمک بن جاتا ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ مسلمان لڑکی علم کو صرف اس وقت "نور” سمجھے جب وہ اللّٰہ کی رضا، کردار کی تعمیر اور عزتِ نفس کی حفاظت کا ذریعہ ہو۔
ایسی تعلیم چاہیے جو اللّٰہ کی یاد سے دلوں کو زندہ رکھے، حیاء کی چمک دے، اور فہم و حکمت سے روشناس کرے۔ علم جو اسلامی تہذیب کا محافظ ہو، نہ کہ اس کا دشمن۔ جب تعلیم دینی شناخت کو مٹا دے تو وہ علم نہیں، آزمائش ہے۔
عورت کا اصل مقام — عزّت اور وقار کا محل
عورت کا مقام کوئی اسٹیج، اسکرین یا بازار نہیں، بلکہ خاندان ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت کی علامت عورت کے کردار کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے۔ جب عورت دین، سلیقۂ زندگی اور کردار سازی سے آراستہ ہو تو اس کی گود نسلوں کو سنوارتی ہے۔
ایسی عورت نہ صرف گھر بلکہ معاشرے کو مہذب، متوازن اور باوقار بناتی ہے۔ اسلام نے عورت کو پردہ دیا، مگر اسے چھپایا نہیں، بلکہ عزّت کا موتی بنا کر خاندان کی روشنی بنایا۔ جو عورت دین کے علم سے مزین ہو، اپنے فرائض کو فخر سے ادا کرے، وہ ملت کی بنیاد اور نسلوں کی تربیت گاہ ہوتی ہے۔
عورت کا اصل مقام وہی ہے جہاں محبت، حیا اور کردار کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ جب عورت اپنے مقام کو پہچان لے، تو وہ خدا کی نگاہ میں قیمتی بن جاتی ہے۔
آزادی اور فتنہ کا فرق — شعور و حیا کی روشنی میں
آزادی اگر شعور، حیاء اور دینی بصیرت سے خالی ہو، تو فتنہ اور تباہی کا دروازہ بن سکتی ہے۔ اسلام نے عورت کو تعلیم، کام اور خودمختاری دی، مگر حدود کے ساتھ۔ اسلام کی دی ہوئی آزادی عزّت اور تحفظ کی ضمانت ہے۔
اسلام عورت کو تعلیم یا کام سے نہیں روکتا، بلکہ حضرت خدیجہؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسلام کو خوف ہے بےراہ روی اور بےپردگی سے۔ جب آزادی شرعی اصولوں اور حیاء کے دائرے میں ہو، تو وہ نکھارتی ہے، بصورت دیگر وہ بگاڑ کی بنیاد بنتی ہے۔
آج عورت کو آزادی کے نام پر ایسی راہیں دکھائی جا رہی ہیں جو فریب اور گمراہی کا باعث ہیں۔ وہ آزادی جو حیاء، وقار، اور پاکیزگی چھین لے، وہ آزادی نہیں، فتنہ ہے۔ عورت جب شریعت کی حدود کو اپنی طاقت سمجھے، تو وہی حقیقی عزّت اور تحفظ حاصل کرے گی۔
آزادی کو خواہشات کے سپرد نہیں، شریعت کے تابع رکھنا چاہیے۔ تبھی وہ روشنی بنے گی، ورنہ شعلہ جو سب کچھ جلا دے۔
ززز

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں