علی شاہد دلکش
اتوار 11/مئی کو اپنی رہائش گاہ پر پہنچا تو ایک نئی کتاب جنت نشاں کشمیر سے بذریعہ ڈاک ارسال کردہ موصول ہوئی۔ جو گزشتہ پرسوں یعنی 7/ مئی 2025 کو پارسل کی صورت ڈاکیہ میرے گھر دے گیا تھا۔ پارسل کھول کر دیکھا تو کتاب "گردِ شبِ خیال” تھی۔ یہ معروف افسانہ نگار محترم فاضل بٹ کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ بھائی فاضل بٹ سے میری ادبی شناسائی برسوں قبل کرونا کے بعد ہوئی تھی۔ پھر ہفت روزہ "بر وقت” کی نسبت سے ہماری قربت بڑھتی گئی۔ غالباً غائبانہ طور پر میرے دیرینہ دوست خطاب عالم شاد Khattab Alam Shad نے ہی ان کو میرے متعلق بتایا تھا۔ بشمول "بر وقت”جنت نشاں کشمیر کے متعدد اخبارات میں متواتر اور دھڑلے سے شائع ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ بذریعہ واٹس ایپ ہمارے مراسم مسلسل گہرے ہوتے چلے گئے۔ ان دنوں جنابِ فاضل شفیعبٹ(مکمل اسم گرامی) ہفت روزہ "بر وقت” کے ادبی صفحہ کے نگراں اور وزیٹنگ ایڈیٹر تھے۔ گاہے گاہے میری مختلف تخلیقات پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا کرتے اور اپنے نو تخلیق کردہ افسانے شائع ہونے سے قبل مجھے ایک بار پڑھ کر تاثرات دینے کو کہتے۔ جب کہ ایک جانب تو میری سرکاری ملازمت نئی نئی تھی اور دوسری جانب گھریلو اور ذاتی ذمہ داریاں بھی مزاحمت کرتیں۔ تاہم دیر سویر ان کی افسانوی تخلیقات کو پڑھتا بھی اور پھر ان پر اپنے تاثرات بھی دیتا۔ قابلِ غور بات کہ صرف وہ محض رسماً "مشکور اور ممنون ہوں” کہنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ موصوف بڑی خندۂ پیشانی سے پیش آتے اور شکریے کے ساتھ میرے کہے پر عمل پیرا بھی ہوتے۔ لہذا بردار نما دوست فاضل کی کتاب "گردِ شبِ خیال” کے 25 افسانوں میں ایک درجن افسانے پہلے سے میرے پڑھے ہوئے ہیں اور بقیہ افسانے جن پر میری نظریں مختلف اخبارات کے ادبی قرطاس پر نمودار ہونے کے بعد پڑیں۔ انہیں پڑھ کر شادمانی ہوتی کہ بندے میں غضب کا تجسس ہے۔ یہ تو دن دونا رات چو گنی ترقی کے ادبی منازل طے کر کے خود کو منواتا چلا جا رہا ہے۔ واضح ہو کہ جناب فاضل شفیعبٹ ایک ذہین افسانہ نگار ہیں اور دانش مند متلاشئ علم۔ خاکسار کو حضرت والا اس ڈگر پہ چلتے نظر آئے کہ علم جب ملے ، جہاں سے ملے اور جیسے ملے پہلی فرصت میں حاصل کرتے رہیں۔ جنابِ فاضل قومی سطح پر موقر روزناموں اور ہفت روزوں سے ہوتے ہوئے ہمارے بڑوں اور ہم عصروں سے ترغیب پاکر معیاری ادبی رسالوں کی جانب بڑھتے نظر آئے۔ ہم دونوں کی مختلف تخلیقات بیشتر قومی اور بین الاقوامی رسالوں/ جریدوں میں ایک ساتھ شائع ہوتیں۔ نتیجتاً ہم قریب سے قریب تر ہوتے گئے۔ پھر ان کی ہی خواہش پر اولاً میری شمولیت کشمیر کے ہفت روزہ "بروقت” کی ایڈیٹوریل ٹیم میں ہوئی اور نصف سال بعد خاکسار ریزیڈنٹ ایڈیٹر بھی بنا۔
بہر کیف ! پہلی نظر کا پہلا پیار کے مترادف مذکورہ کتاب میں موجود ان کے "پیش لفظ” کے مدنظر مختصراً یہی کہوں گا کہ بچپن یتیمی میں گزارنے کی وجہ کر زندگی کو بہت قریب سے دیکھ کر وہ بھلے ہی احساسِ محرومی کا باسی بنے ہوں مگر وہ کبھی نا امید نہیں ہوئے۔ اپنی تعلیم و ذہانت کی بنا پر ہندوستانی بحریہ (انڈین نیوی) میں پندرہ سال مرکزی حکومت کے وزارتِ دفاع میں سرکاری ملازمت کی۔ پھر سبکدوشی کے بعد گزشتہ حالیہ دنوں میں "ایکس آرمی مین” کے کوٹے سے مقابلہ جاتی امتحان (کمپیٹیٹو اکزام) میں جان کھپا کر پھر سے ایک سرکاری نوکری(صوبائی حکومت کے تحت) حاصل کر لی۔ بندے میں کتنا دم خم ہے یہ اس کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔ مزید اس دوران اپنے افسانوی مجموعے "گردِ شبِ خیال” کے ذریعے جنابِ فاضل نے اردو زبان و ادب سے اپنی محبت کو بھی خوب ثابت کیا۔ جیسا کہ ان کا ماننا ہے۔
” اردو زبان و ادب ان کا پہلا عشق ہے۔”
اب آئیے افسانہ نگار فاضل بٹ کی خواہش پر کتاب/تخلیق پر اختصار کے ساتھ اظہارِ خیال کی جانب۔
کتاب "گردِ شبِ خیال” میں شامل ان کے بیشتر افسانوں میں کہانی پن بہت اچھا ہے اور ان کہانیوں میں سے چنندہ کو افسانوی رنگ دینے میں بےحد کامیاب نظر آتے ہیں۔ مثلاََ افسانے بہ عنوان "مایا کا کھیل” ، "کالی کوکھ کا دکھ” ، "آخری جزیرہ” ، "نا کردہ گناہ” ، "شکست آرزو” ، "شب خون” ، "ذبیحہ” ، "تاریک لحد” اور "بنجر پور کا قبرستان” افسانے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ فاضل کے افسانے پڑھنے سے لگتا ہے کہ انھوں نے اپنے ہی اردگرد پڑے کردار کو اٹھایا ہے نیز اچھے پلاٹ کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کچھ افسانوں سے تو معلوم ہوتا کہ یہ ان کے ذاتی واقعات/قصے ہیں جس میں ان کا ذاتی کرب جھلکتا ہے۔ ان کی پیش کش اچھی ہے اور پیغام رسانی کا کام بھی خوب ہوا ہے۔ اکر کسی تخلیق کار کی تخلیقات سے پیغام رسانی کام ہوا ہو تو اسے بہت حد تک کامیاب تخلیق کار کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے بیشتر افسانوں میں وحدت تاثر کا دامن تھامے رکھا ہے جو افسانے کا اہم جز ہوتا ہے۔ البتہ کردار نگاری کی طرح منظر نگاری میں بہتری کی گنجائش ہے۔ مکالمہ نگاری بھی فاضل کے یہاں خوب ہے مگر کہیں کہیں کفایت لفظی کے حصار میں نظر آتے ہیں۔ واقعات کا تسلسل ، کردار کے قول و فعل اور بیانیہ کو بڑے احتیاط سے برتنے میں ہنر مند نظر آتے ہیں۔ ابھی بس اتنا ہی ۔ ۔ ۔
زندگی نے مہلت دی اور دوست فاضل کی دعائیں اور محبتیں ساتھ رہیں تو مستقبل قریب میں اللہ کے فضل و کرم سے ان کی کتاب کو تجزیاتی مطالعے کی دہلیز کے اس پار لے جا کر اپنی کم علمی ، کم فہمی اور ناقص بیانی کے ساتھ اس زیر نظر کتاب پر ایک تبصرہ یا تجزیاتی مضمون مع دلیل تحریر کروں گا۔ ان شاءاللہ
ززز