نسیم اشک
ملک کی آزادی تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جس میں اہل وطن کی قربانیوں ،اعتماد اور حوصلے کی کہانیاں سنہرے لفظوں میں درج ہیں۔آزادی کی سوغات نے اہل وطن کی آنکھوں میں خوداعتمادی اور خوشی کی امنگیں بھر دی۔زندگی کے ہر محاذ پر اہل وطن نے تبدیلیوں کا استقبال کیا اور ہر شعبے میں زندگی کی ایک نئی شمع جل اٹھی جہاں اس آزادی کا یہ اثر روز مرہ انسانی زندگی کے اعمال پر ہوا وہیں اس نے فکر و نظر کو بھی متاثر کیا اور جس کا بلاواسطہ اثر ادب پر بھی پڑا۔ادب تو اپنے ابتدا سے ہی انسانی زندگی کی نمائندگی کرتا ہے اور وہ ادب ہی کیا جس میں اس عہد میں سانس لینے والے انسانوں اور رونما ہوئے اچھی یا پھر برے واقعات کے نقوش بھی نہ ملیں۔ادب کو میں سماج اور عہد کا آئینہ مانتا ہوں۔ادب کی فعالیت کا سب سے مضبوط ثبوت اس کا اپنے وقت اور حالات کا سچا ترجمان ہونا ہے اور اردو ادب بلاشبہ اس معاملے میں دوسرے ادب سے آنکھ ملانے کی جرأت رکھتا ہے حیف اس بات پہ ہے کہ ہم فن اور فن کار کی اہمیت کو گھٹانے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جبکہ ہمارے پیش نظر دوسری زبانوں کا ادب بھی ہے جو ہماری ایسی سوچ پر مسکراتا ہے اور ہم قد گھٹانے ، عیوب تلاش کرنے میں ہمت مرداں کے نظارے پیش کرتے رہتے ہیں۔ازحد ضروری ہے کہ ہم کسی تیسرے کے آنے کا انتظار نہ کریں۔اپنے پاس جو ہے وہ کسی طور پر کم نہیں اس کی قدر کریں۔ کیا خبر کل وہ بھی۔۔۔۔۔۔
درپیش مسائل کے درمیان ہنسی کے بہانے ڈھونڈنا، خون رستے زخم کے درد میں ہنسنے کی داد طلب کرنا واقعی ہمت و استقلال کی اعلیٰ مثال ہے اور یہ کام مزاح نگار عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو غموں میں ہنسنے اور ہنسانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جہاں غم سے دل کراہ اٹھتا ہے وہیں سے یہ لوگ ہنسی کے فوارے رواں کرتے ہیں جس سے کچھ ہو یا نہ ہو انسان کے دکھ کا وزن ضرور کم ہوجاٹا ہے اور سلگتے احساسوں کو تسکین کے پل میسر ہوجاتے ہیں۔آزادی کے بعد شاعری اور نثر دونوں میں اسلوب ، موضوعات اور پیشکش کے طریقے میں ایک تبدیلی آئی نثری اصناف کے غیر افسانوی ادب طنز ومزاح نے بھی اس کا گہرا اثر قبول کیا۔
"طنز ومزاح اردو نثر میں آزادی کے بعد” ڈاکٹر نہال ناظم کا مجموعہ ہے۔یہ مجموعہ دراصل ان کا مقالہ ہے جسے موصوف نے کتابی شکل دی ہے۔٢٠٠ صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں چھ ابواب ہیں۔اس میں مصنف نے آزادی کے بعد اردو نثر میں طنز ومزاح کی روایت کا بھر پور جائزہ پیش کیا ہے اور بڑی مدلل گفتگو کی ہے۔
مجموعے میں مصنف نے صفحہ 17 پر مزاح اور خوش رہنے کے متعلق ابوالکلام آزاد کے "غبار خاطر ” سے جو اقتباس پیش کیا ہے وہ یہاں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتاہے۔
"اگر آپ نے یہاں ہر حال میں خوش رہنے کا ہنر سیکھ لیا تو یقین کیجئے زندگی کا سب سے بڑا کام سیکھ لیا۔اس کے بعد اس سوال کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ آپ نے اور کیا کیا سیکھا ہے، خود بھی خوش رہئے اور دوسروں سے بھی کہتے رہئے کہ اپنے چہروں کو غمگین نہ بنائیں۔”
انسان کی زندگی میں ہنسی بڑی اہمیت رکھتی ہے اکثر جو لوگ ہنسی سے دور ہوتے ہیں انہیں چھوٹی سے چھوٹی الجھن بھی پریشان رکھتی ہے اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی کے مشکل ترین حالات میں بھی ہنستے رہتے ہیں اور دکھ کو قہقہوں میں گم کردیتے ہیں۔ہنسی خدا کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔پہلے باب میں مصنف نے حس مزاح اور ہنسی کے متعلق تفصیلی گفتگو کی ہے اور مختلف مشاہیر شخصیات کی آراء اور واقعات کو پیش کیا ہے جس کے مطالعے سے انسانی زندگی میں مزاح کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
دوسرا باب میں ظرافت اور مزاح کی ماہیت ،مزاح کے حدود و قیود اور اس کے نمود میں کارفرما عناصر کا تذکرہ کیا گیا ہے۔طنز و مزاح بہت آسان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت نازک صنف بھی واقع ہوئی ہے بیشتر ایسے مزاحیہ مضامین بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں یہ تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ طنز و مزاح ہے یا لطیفہ، کچھ ذاتی بغض سے پر ہوتے ہیں تو کچھ چھوٹے موٹے ایسے واقعات پر مبنی ہوتے ہیں جو ظرافت کے تقدس پر بار ہوتے ہیں۔ظرافت نگاری میں خیال کی وسعت اور سلیقہ اظہار بہت اہم ہوتے ہیں۔
ظرافت نگار ہتھوڑا نہیں چلاتا وہ اپنی بات کو اور حسن اصلاح کو مسکراتے ہوئے، گدگداتے ہوئے کہہ گزرتا ہے جس کا اثر ممکن ہے اسی وقت نہ ہو مگر اس کا اثر نہ ہو یہ بھی ممکن نہیں۔ظرافت نگار بھی سماج کی برائیوں پر نظر رکھتا ہے مگر اس کی نشاندھی بہت لطیف انداز میں کرتا ہے۔طنز نگار کسی مخصوص شے یا عمل کی جانب نشاندھی کرتا ہے تو اس کے طریقے بالکل جدا ہوتے ہیں اور ایسی نشاندھی سے وہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا جو ایک مزاح نگار کو ہوتا ہے۔موصوف نے اس باب کے تحت مزاح نگاری کی نمود کے عناصر کے ساتھ مزاح کے اقسام اور اس کی کچھ ذیلی شاخوں پر بھر پور جائزہ پیش کیا ہے۔
اس پر آشوب دور میں جہاں انسان کو ہزارہا آفتوں کا سامنا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا نہیں سکتا ،اس عالم بے کسی میں مزاح نگاری اس جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔مصنف نے اپنے اس تھیسیس کو کتابی شکل میں لاکر مزاح نگاری کو دوسرے درجے کا ادب سمجھنے والوں کو یہ باور کرایا ہے کہ مزاح نگاری دوسرے درجے کی نہیں بلکہ ایک سنجیدہ اور بہت اہم صنف ہے جس پر قلم کاروں کو سنجیدگی سے مذید کام کرنا چاہئے۔ماہرین فن اور قاری دونوں کی توجہ کی طلبگار یہ صنف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سفر کا جاری رہنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ مشینی انسان کی زندگی سے شگفتگی اور مسکراہٹیں کھوتی جارہی ہیں۔حالات تیزی سے بدل رہے ہیں،نئی نئی پریشانیاں جنم لے رہی ہیں،بھوک ،مفلسی اور معاشی بدحالی نے لوگوں سے ان کے چہرے کی ہنسی چھین لی ہے۔ایسی صورت حال میں ہنسنا اور ہنسانا دونوں مشکل ہوتا ہے ۔خالی پیٹ ، منتشر ذہن میں مزاح کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا مگر ان حالات میں بھی مثبت نظرئے کا مظاہرہ اور حال زار کا بیان پر زور طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔وزیر آغا اپنی کتاب "اردو ادب میں طنز و مزاح ” میں رقمطراز ہیں۔
"جب معاشرہ بھوکا ہو تو اس میں طنز و مزاح کو فروغ ملتا ہے اور تخریب و نشتریت اور برہمی کے عناصر ابھرتے ہیں دوسری طرف فارغ البالی کے دور میں ماحول سے یگانگت اور انس بڑھ جاتا ہے۔”
تیسرا باب طنز کے مفہوم اور ماہیت پر روشنی ڈالتا ہے۔طنز اپنے اندر ایک چبھن کا احساس رکھتا ہے۔ظرافت سے بالکل الگ ہے۔اس باب کے تحت مصنف نے طنز اور تنقید کے درمیان فرق بھی واضح کیا ہے۔طنز کسی طور بھی پسند کی چیز نہیں۔اس حوالے سے مصنف نے صفحہ نمبر 59 پر سورۃ الحجرات کی آیت کا ترجمہ پیش کیا ہے۔
"آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے الفاظ سے یاد کرو ، ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں۔”
طنز نگاری جب ذاتی بغض کا رنگ لے لیتی ہے تو بد مزہ ہوجاتی ہے۔ظرافت نگار لطیف پیرائے میں اپنی بات بول جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کسی اہم نکتے کی جانب اشارہ بھی کر جاتا ہے جسے لوگ سمجھ جاتے ہیں۔دونوں کے طریقے قدرے مختلف ہیں مگر ان دونوں کی ضرورت ادب کو بھی ہے اور سماج کو بھی۔
طنز و مزاح کی روایت قرآنی آیات و کتب حدیث میں بہت معلوماتی مضمون ہے۔طنز ومزاح کے اعلیٰ نمونے دیگر زبانوں کے ادب میں بھی ملتے ہیں جن میں انگریزی اور فارسی کا ذکر مصنف نے کیا ہے۔انگریزی ادب میں انیسویں صدی میں طنز و مزاح نے زور پکڑا۔فارسی ادب میں بھی طنز مزاح کے بہترے نمونے ملتے ہیں۔طنز و مزاح کے اولین نمونے ادب کے ابتدائی دور سے ہی ملتے ہیں۔جعفر زٹلی،سودا،نظیر وغیرہ نے اپنی نظموں میں طنز و مزاح کے خوب پہلو تراشے ہیں۔
اردو نثر میں طنز و مزاح نگاری کے بہترین نمونے غالب کے یہاں ملتے ہیں۔غالب کے نثری سرمائے میں ان کی ظرافت کا معیار اور طنزیات کے سلیقے اتنے شگفتہ ہیں کہ قاری گھنٹوں ان کے کہے ایک جملے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ان کی حاضر دماغی سے ظرافت کے پھوارے پھوٹ پڑتے ہیں۔اس ضمن میں غالب کے خطوط نگاری کو پیش نظر رکھا جا سکتا ہے۔ مہدی افادی،محفوظ علی بدایونی،عبدالماجد دریابادی،سلطان حیدر جوش،پریم چند،مولانا آزاد، ملا رموزی،خواجہ حسن نظامی کے علاوہ عباس علی حسینی ،عظیم بیگ چغتائی ،فرحت اللہ بیگ وغیرہ ان نثر نگاروں کی فہرست میں اہم مقام رکھتے ہیں جن کی نثر میں طنز و مزاح کے اعلی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
آزادی کے بعد اردو افسانے میں طنز و مزاح ایک دلچسپ موضوع ہے ،دلچسپ یوں کہ افسانوں میں طنز و مزاح کی چاشنی ڈالنا منفرد کام ہے۔کرشن چندر ،سعادت حسن منٹو ،عصمت چغتائی ،خواجہ احمد عباس،رام لعل ،بیدی،انتظار حسین کے افسانوں میں طنز کی جو کاٹ ملتی ہے وہ واقعئی قابل دید ہے۔ان کے افسانوں میں اس کیفیت کا احساس جابجا ملتا ہے جس کیفیت سے اس وقت سماج دو چار رہا۔کہیں کہیں یہ کاٹ بہت واری ہے اور کہیں قہقہوں میں رچی بسی ایک آہ ، ایک درد کا احساس ابھرتا ہوا نظر آتا ہے۔کرشن چندر کے افسانوں میں "جامن کا پیڑ” کس قدر انسانی سماج میں پھیلی بے حسی کو درشاتا ہے جہاں ایک موت کے قریب جا رہا ہے وہیں مدد کے بجائے قانونی اڑچنے نظر اتی ہیں۔”کتا پلاننگ” آزادی کے بعد کے سیاسی اور سماجی بد نظمی پر گہرا طنز کرتا ہے۔ منٹو نے تو پپڑی جمے ہوئے زخموں کو بھی کریدنا شروع کیا اور سماج کا وہ گھناؤنا چہرہ سب کے سامنے لایا جس کو دیکھ کر نام نہاد مہذب سماج تلملا اٹھا،منٹو نے اذیتیں بھی سہیں مگر اپنے قلم کی بے باکی سے سمجھوتہ نہیں کیا۔منٹو اپنی خود نوشت میں رقمطراز ہیں۔
"زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے واقف ہیں تو میرے افسانے پڑھئے اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کرسکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔میری تحریر میں کوئی نقص نہیں جس نقص کو میرے نام منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے”
منٹو کے افسانوں میں طنز کی کاٹ شدید ہے۔ٹوبہ ٹیک سنگھ،سوگندھی ،دھواں،نیا قانون اور ایسے کئی افسانے جن میں منٹو نے سماج کی برائیوں کے پردے کو چاک کیا ہے۔عصمت چغتائی کا افسانہ” ٹیڑھی لکیر "، بیدی کا "حجام آلہ باد کا ” وغیرہ افسانوں میں طنز و مزاح کا واضح نقوش ملتے ہیں۔رشید احمد صدیقی، کنہیا لال کپور ،فکر تونسوی ،احمد جمال پاشا،مشتاق یوسفی،مجتبی حسین یوسف ناظم، وغیرہ کے نثر پاروں میں بھی طنز و ظرافت کے نمایاں عکس دکھائی دیتے ہیں۔
موصوف نے اپنی اس کتاب میں آزادی کے بعد اردو نثر میں طنز و مزاح کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔چھ ابواب پر محیط یہ مجموعہ بہت کار آمد ہے۔آزادی کے بعد طنز و مزاح کی روایت کو جاننے میں اور مستقبل میں اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ڈاکٹر نہال ناظم نے ایک اہم موضوع پر عمدہ کتاب پیش کی ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آئندہ دنوں میں بھی اس صنف میں فن کے کمالات منظر عام پر آئیں گے کیونکہ موضوعات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ایک وسیع میدان اس صنف کے پر تپاک استقبال کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے اس تناظر میں کئی ایسے ناموں کو گنا ہے جن سے مستقبل میں اس صنف کی آبیاری ہوتی رہے گی۔ آنے والا عہد اپنے ساتھ بہت کچھ نیا لے کر آئے گا اور انسانی طرز زندگی میں بے شمار اور ناقابل یقین تبدیلیاں آجائیں گی مگر ان سب کے باوجود اس صنف کے لکھاری اپنی تحریروں میں طنز و مزاح کے نقش و نگار ابھارتے رہیں گے اور شائد اس کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ محسوس کی جائے۔موصوف نے اپنی اس تحقیقی کتاب میں طنز و مزاح کے ایک طویل سفر کی روداد کو بہت سلیقے اور شگفتگی سے ایک مجموعے کے شکل میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔مجموعہ لائق تحسین ہے۔نہایت معلوماتی اور موضوعات بہت دلچسپ ہیں۔ڈاکٹر نہال ناظم کی تحریروں کی سادگی اور طرز اظہار بہت پر تاثیر ہیں۔ یہ کتاب اردو ادب کے قارئین کے ساتھ طنز و مزاح کے موضوع پر کام کرنے والوں کے لئے ایک عمدہ تحفہ ہے۔اس کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹر نہال ناظم صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ خالق بحر و بر ان کے قلم کو تابندگی بخشے۔
نسیم اشک