فردوس احمد ملک
وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح کی ہوتی ہے۔ نہ وہ دہلی جیسی جھلسا دینے والی ہوتی ہے، نہ ممبئی جیسی نم۔ یہاں کی گرمی سبز ہوتی ہے—سبز درخت، سبز کھیت، سبز پہاڑ، اور سبز خواب۔ مگر یہی سبز گرمی، جہاں قدرت کا حسن پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہوتا ہے، وہاں ایک ایسا کرب بھی چھپا ہوتا ہے جو ہر نوجوان کے سینے میں سلگ رہا ہوتا ہے۔
یہی سبز گرمی زیشان احمد کی زندگی میں بھی آئی۔ پلوامہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والا زیشان، ایک حساس اور ذہین نوجوان تھا۔ وہ اکثر اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہتا، "یہ درخت، یہ پہاڑ، سب جیسے کچھ کہنا چاہتے ہیں، مگر چپ ہیں۔ جیسے میرے اندر کی آوازیں۔”
زیشان کا خواب بڑا تھا—وہ سول سروسز میں جانا چاہتا تھا، ایک ایسا افسر بننا چاہتا تھا جو وادی کے نوجوانوں کی امید بنے۔ اس کے پاس کتابوں کا خزانہ تھا۔ فیض، غالب، ساحر، اقبال، نیوٹن، امبیڈکر، سب اس کی تنہائی کے ساتھی تھے۔ وہ راتوں کو جاگ جاگ کر مطالعہ کرتا، اور دن میں بچوں کو پڑھاتا تاکہ گھر کا خرچ بھی نکال سکے۔
لیکن وادی کے خواب اکثر نیند سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔ زیشان کا دوست امتیاز، جو کہ ایک باصلاحیت مصور تھا، ایک دن ایک احتجاجی مارچ کی تصویر بنانے گیا۔ نہ وہ نعرے لگا رہا تھا، نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا تھا، لیکن ایک اندھی گولی نے اس کی زندگی چھین لی۔ امتیاز کی موت زیشان کے دل میں وہ زخم چھوڑ گئی جو لفظوں سے بھی نہیں بھرتا۔
زیشان کئی دن تک خاموش رہا۔ اس نے نہ کتاب چھوئی، نہ شاعری کی، نہ کھڑکی کھولی۔ جب کھولا، تو دیکھا کہ باہر سب کچھ ویسا ہی ہے—درخت سبز، آسمان نیلا، پرندے آزاد، مگر انسان قید۔ وہ بولا، "امتیاز تو مر گیا، مگر میں کیوں زندہ ہوں؟ اگر میرے قلم سے ایک جان بھی بچ سکتی ہے، تو میں لکھوں گا۔”
اسی دن سے اس نے اپنی شاعری کو صرف جذبات کا اظہار نہیں بلکہ مزاحمت کی زبان بنا لیا۔ اس کی نظمیں سوشل میڈیا پر پھیلنے لگیں، دیواروں پر چاک کی صورت لکھی جانے لگیں، اور نوجوانوں کے دلوں میں بیداری پیدا کرنے لگیں۔ ایک نظم کا مصرعہ تھا:
"گرمیاں آئیں، پھول کھلے، خواب جاگے، اور پھر کسی گلی کے نکڑ پر
ایک جنازہ اٹھا۔”
زیشان کی شہرت بڑھنے لگی۔ ایک دن اس نے اپنی کتاب "وقت کے درمیان” شائع کی، جس میں اس کی تمام نظمیں اور فکری مضامین شامل تھے۔ یہ کتاب نہ صرف ادبی حلقوں میں مقبول ہوئی بلکہ نوجوانوں میں بھی امید کی ایک کرن بن گئی۔
کئی اخبارات نے اس پر تبصرے کیے، کئی ٹی وی چینلز نے انٹرویو کی درخواست دی، لیکن زیشان نے صرف ایک بات کہی: "میں صرف ایک شاعر ہوں، نہ لیڈر، نہ ہیرو۔ بس ایک خواب ہوں جو ابھی مکمل نہیں ہوا۔”
زیشان کی کہانی دراصل ہر اس کشمیری نوجوان کی کہانی ہے جو اپنی خاموشیوں میں طوفان چھپائے بیٹھا ہے۔ جو اسکول کے بستے میں صرف کتابیں نہیں، بلکہ سوالات بھی رکھتا ہے۔ جو شاعری میں صرف حسن نہیں، حقیقت بھی دیکھتا ہے۔ جو گرمیوں کے سبز مناظر میں صرف بہار نہیں، بلکہ ایک ماضی کا درد اور مستقبل کی بے یقینی بھی محسوس کرتا ہے۔
آج بھی وادی میں گرمی آتی ہے، درخت سرسبز ہو جاتے ہیں، جھیلیں شفاف ہو جاتی ہیں، اور بچے کرکٹ کھیلنے نکل آتے ہیں۔ لیکن کہیں نہ کہیں کوئی زیشان، کھڑکی کے پاس بیٹھا، اپنی ڈائری کھول کر ایک نئی نظم لکھ رہا ہوتا ہے۔ ایک نظم جو شاید کبھی مکمل نہ ہو، لیکن پھر بھی لکھی جا رہی ہوتی ہے۔
یہ سبز گرمی محض موسم نہیں، ایک استعارہ ہے—کشمیر کے ان خوابوں کا، جو ہر سال پھولنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ہر بار یا تو سرد ہواؤں میں جم جاتے ہیں، یا کسی گولی کی آواز میں دب جاتے ہیں۔
زیشان کی طرح بہت سے نوجوان اب بھی اپنی کہانی نہیں کہہ پاتے، لیکن ان کے دل میں ایک سطر ضرور رہتی ہے:
"ہم نے سبز گرمیوں میں خواب دیکھے،
اور ہر خواب کے ساتھ ایک قبر تیار کی۔”
مصنف ایک کالم نگار اور شعبۂ سیاسیات میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ وہ منصروور گلوبل یونیورسٹی، بھوپال، مدھیہ پردیش سے وابستہ ہیں۔