جنگ نیوز ڈیسک
G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری سربراہی اجلاس کے دوران ایک مضبوط مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے عزم کو دہرایا گیا اور ایران کے ساتھ کشیدگی کے دوران اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا: "ہم،G7کے رہنما، مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔”
یہ اجلاس کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین کے رہنماؤں کی شرکت سے منعقد ہوا۔
اسرائیل کی سلامتی سے متعلق خدشات پر بات کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا: "ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ہم اسرائیل کی سلامتی کے لیے اپنی حمایت دہراتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا: "ہم شہریوں کے تحفظ کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔”
بیان میں ایران کو براہ راست خطے میں موجودہ بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا: "ایران خطے میں عدم استحکام اور دہشت گردی کا بنیادی ذریعہ ہے۔”
ایران کے جوہری عزائم کے بارے میں جی-7 کا مؤقف واضح اور سخت رہا: "ہم مستقل طور پر واضح کرتے رہے ہیں کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔”
رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ میں وسیع تر کشیدگی میں کمی کی اپیل کی اور کہا: "ہم چاہتے ہیں کہ ایران کے بحران کا حل خطے میں کشیدگی میں کمی اور غزہ میں جنگ بندی کا باعث بنے۔”
عالمی توانائی منڈی پر ممکنہ اثرات کے پیش نظر، جی-7 رہنماؤں نے چوکسی اختیار کرنے اور مشترکہ اقدامات کے لیے آمادگی ظاہر کی: "ہم عالمی توانائی منڈیوں پر اثرات کے حوالے سے چوکس رہیں گے اور ہم خیال شراکت داروں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں تاکہ منڈی میں استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔”
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان فوجی کشیدگی اور سفارتی تناؤ میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اور عالمی برادری فریقین سے تحمل اور مذاکرات کی اپیل کر رہی ہے۔
ٹرمپ کیG7 اجلاس سے اچانک واپسی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپG7 اجلاس کے دوران اچانک کلگری سے روانہ ہو کر واشنگٹن واپس چلے گئے، مشرق وسطیٰ کی سیکیورٹی صورتحال کے پیش نظر کئی اہم ملاقاتیں منسوخ ہو گئیں۔
ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے اسرائیل-ایران جنگ بندی کی بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا:
"جب تک ایران جوہری پروگرام ترک نہیں کرتا، امریکہ سخت اقدامات کرے گا۔”
یہ قدم ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے پس منظر میں اٹھایا گیا ہے، اور عالمی رہنماؤں کی نرم روی کی بجائے ٹرمپ نے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے فوری سیکیورٹی مشاورت کے لیے ان کی واپسی کی تصدیق کی ہے۔