مصاحبہ کار
ذوالفقار علی بخاری
افسانچہ نگاری کی ابتدا ء سعادت حسن منٹو سے ہوئی اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس صنف نے اپنا مقام مستحکم کرلیا ہے۔دورحاضر میں کئی افسانچہ نگار وں نے اِسے دوام بخشنا ہے۔محمد علیم اسماعیل دورحاضر کے متاثرکن افسانچہ نگار ہیں جنھوں نے افسانچہ نگاری کے حقیقی رنگ کو بہ خوبی عیاں کیا ہے۔اگرچہ پہل پہلے اِنھوں نے بچوں کے لیے لکھا تاہم 2016سے افسانہ نگاری کی جانب توجہ مبذول کر چکے ہیں۔محمدعلیم اسماعیل نے نوعمری میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی حیات پر ایک کتاب پڑھی تھی۔ یہ کتاب اِنھوںنے اکولہ ریلوے اسٹیشن کے بک اسٹال سے خریدی تھی۔کتاب پڑھنے کے بعد علامہ اقبالؒ پر ایک مختصر سا مضمون لکھا جوایک روزنامہ میں شائع ہوا۔ اِس سے کافی حوصلہ ملا بلکہ اِس مضمون کی اشاعت ہی لکھنے کا سبب بن گئی۔ اِس کے بعد بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں جو اخبارات کی زینت بنتی رہیں اوربعدازاں افسانچہ نگاری میں اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔
محمد علیم اسماعیل کے بقول’’ میں نے افسانے کو نہیں بلکہ افسانے نے مجھے منتخب کیا ہے۔‘‘
اِن کے افسانے اورافسانچے زندگی کے حقیقی مسائل اورکڑوی سچائی کو عیاں کرتے ہیں ۔جسے دیکھتے ہوئے راقم الحروف یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ہے کہ دورحاضر میں سعادت حسن منٹو کے حقیقی جانشین ہیں ،جنھوں نے وہی لکھا جسے محسوس کرتے ہیں۔
محمد بشیر مالیر کوٹلوی لکھتے ہیں’’علیم کی خوبی یہ ہے کہ وہ دوسرے افسانچہ نگاروں کی طرح تھوک کر افسانچے تخلیق نہیں کرتا ۔یہی وجہ ہے کہ علیم کے افسانچوں میں معیار نظر آتا ہے۔‘‘
وسیم جیلانی فرماتے ہیں ’’علیم اسماعیل نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ثابت کیا ہے کہ کم الفاظ میں بھی بڑے خیالات اور گہرے جذبات کو مؤثر انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اسلم جمشید پوری کے بقول’’ علیم کے اندر، لگن ، نیا کرنے کا جذبہ اورکہانی کی چنگاری ہے۔‘‘
ڈاکٹر قمر صدیقی لکھتے ہیں’’ وہ( علیم اسماعیل )فطری افسانہ نگار ہیں،ان کے افسانوں میں معاصر زندگی کی بھر پور عکاسی نظر آتی ہے۔‘‘
22جون 1982کومحمد علیم اسماعیل نے ضلع بلڈانہ کے قصبے ناندورہ میں جنم لیا۔آپ بلڈانہ ضلع کے محکمہ تعلیم میں برسرروزگار ہیں۔محمد علیم اسماعیل کی اب تک چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں الجھن(افسانے اورافسانچے)2018، رنجش(افسانے)2020 اور تنقید پر مبنی کتاب’افسانچے کا فن۔2021‘ اور’تماشا(افسانے اورافسانچے)2024‘شامل ہیں۔
دورحاضر کے نامور افسانچہ نگار، افسانہ نگار محمد علیم اسماعیل کا زیر نظر مصاحبہ کئی اہم موضوعات کا احاطہ کرتا ہے جویہاں سوالات و جوابات کی صورت میں قارئین سرینگر جنگ کےلئے پیش کیا جاتا ہے۔
کیا متاثرکن تحریریں وہی لکھ سکتا ہے جس نے زندگی کے رنج والم سہے ہوں؟
محمد علیم اسماعیل:ایسا ضروری نہیں کہ صرف وہی شخص متاثرکن تحریریں لکھ سکتا ہو جس نے زندگی کے رنج و الم سہے ہوں، لیکن دکھ درد، محرومی اور جدوجہد انسانی جذبات کو گہرائی بخشتی ہے۔ ایسے تجربات تحریر میں ایک صداقت، ایک سچائی بھر دیتے ہیں، جو قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔ لیکن، ایک حساس ذہن، مشاہدہ کرنے والی آنکھ اور دوسروں کے درد کو محسوس کرنے والا دل بھی ایسی تحریریں تخلیق کر سکتا ہے، جو متاثرکن ہوں۔ اصل چیز احساس کی شدت ہے، وہ چاہے ذاتی تجربے سے آئے یا ہمدردی کے جذبے سے۔
بچپن اور جوانی کے کن واقعات نے زندگی کو بہتر انداز میں جینے کا حوصلہ دیا؟
محمد علیم اسماعیل:بالکل سیدھی اور ایماندارانہ بات ہے کہ زندگی کو بہتر انداز میں جینے کا دعویٰ کرنا میرے لیے ذرا مشکل ہے، کیونکہ انسان کی زندگی میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ کمی، یا تشنگی باقی رہتی ہے۔ میں نے کبھی کسی ایک خاص واقعے کو زندگی بدلنے والا لمحہ محسوس نہیں کیا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ بچپن سے ہی ایک خیال دل میں رہا کہ مجھے کچھ کرنا ہے، اور وہی کرنا ہے جس میں میری دلچسپی ہو، جو میرے مزاج اور فطرت سے میل کھاتا ہو۔ یہی جذبہ شاید قدم قدم پر میری رہنمائی کرتا رہا اور مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا رہا۔
اپنی کامیاب زندگی میں کن شخصیات اور اداروں کا کردار ناقابل فراموش سمجھتے ہیں؟
محمد علیم اسماعیل:اگر میری زندگی میں کسی کو کچھ کامیابیاں یا مثبت پہلو نظر آتے ہیں تو ان کا سارا کریڈٹ میرے والدین اور بڑے بھائی مرحوم شیخ یوسف کو جاتا ہے۔ والدہ اور بڑے بھائی میری تعلیم کے معاملے میں بے حد فکر مند رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن کوشش کی کہ میں اچھی تعلیم حاصل کر سکوں۔ میرے والد اگرچہ کم گو ہیں، مگر عملی طور پر ہمیشہ میرے ساتھ کھڑے رہے۔ جہاں بھی مدد کی ضرورت ہوئی، وہ خاموشی سے تعاون کرتے رہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے میری بنیادوں کو مضبوط کیا اور میری زندگی کو ایک سمت دی، جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
آپ کو دور حاضر اور ماضی کے افسانچہ نگاروں/افسانہ نگاروں میں کیا نمایاں خصوصیات دکھائی دیتی ہیں؟
محمد علیم اسماعیل:ماضی کے افسانہ اور افسانچہ نگار مطالعے میں گہرائی اور تحریر میں ٹھہراؤ کے قائل تھے۔ وہ لکھنے سے پہلے سوچتے، پرکھتے اور پھر قلم اٹھاتے تھے۔ آج کے قلمکاروں میں لکھنے کا رجحان تو تیز ہوا ہے، مگر مطالعے کی کمی ان کی تحریروں سے جھلکتی ہے۔ دورِ حاضر میں ٹیکنالوجی کی ترقی اور اشاعت کے تیز ذرائع نے تخلیق کو سہل ضرور بنا دیا ہے، لیکن اس رفتار کے چکر میں معیار کہیں پیچھے چھوٹ گیا ہے۔ آج کے قلم کار کو چاہیے کہ وہ رفتار اور معیار میں توازن برقرار رکھیں، تاکہ تخلیق میں معنویت ہو۔
دور حاضر کی افسانچہ نگاری کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ نئے افسانچہ نگاروں کو کن امور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے؟
محمد علیم اسماعیل:دورِ حاضر کی افسانچہ نگاری کچھ حد تک اطمینان بخش ہے۔ ایسے کئی افسانچہ نگار ہیں جو زبان و اسلوب پر گرفت رکھتے ہیں اور عصری مسائل کو افسانچے کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔ لیکن کچھ افسانچہ نگار ایسے بھی ہیں جنہیں افسانچے کی فنی باریکیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ صنف اختصار کے باوجود گہرے تاثر کی متقاضی ہے۔ صرف لکھنے کی رفتار کافی نہیں، معیار کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ مطالعہ، مشاہدہ اور فکری پختگی کے بغیر افسانچہ محض ایک خیال بن کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے نئے قلمکاروں کو چاہیے کہ وہ رفتار اور معیار میں توازن پیدا کریں۔
اردو زبان کے فروغ میں کس صنف کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہے؟
محمد علیم اسماعیل:اردو زبان کے فروغ میں تمام اصنافِ ادب نے اپنی اپنی سطح پر کردار ادا کیا ہے، مگر میرے نزدیک ’افسانہ‘ اس صنف کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ افسانہ/افسانچہ کم وقت میں گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے تجربات، جذبات، تضادات اور مسائل کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ جدید دور میں، آج قارئین کے پاس وقت کم ہے، افسانہ مختصر ہوتے ہوئے بھی مکمل دنیا تخلیق کرتا ہے۔ افسانچے کے ذریعے اردو کو نئی نسل تک پہنچانا آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے فروغ میں اس صنف کا کردار اہم ہے۔
رنجش، اْلجھن، تماشا، منفرد عنوانات کی کتب ہیں۔ آپ کن نکات کو ذہن میں رکھ کر کتب کے نام رکھتے ہیں۔ یہ بھی آگاہ کیجیے کہ کتاب کا نام مصنف کی شخصیت کو کیسے عیاں کرتا ہے۔
محمد علیم اسماعیل:کتاب کا عنوان محض نام نہیں ہوتا، بلکہ وہ تخلیق کے مزاج، مواد اور مصنف کی کیفیت کا عکاس ہوتا ہے۔ میں جب کسی کتاب کا نام رکھتا ہوں تو اس کے مرکزی تھیم، مواد کی نوعیت اور اس تاثر کو مدنظر رکھتا ہوں جو قاری کے دل پر پڑے گا۔ رنجش ہو یا الجھن یا تماشا…. یہ سب زندگی کے ان پیچیدہ پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں جن سے ہر کوئی گزرتا ہے، جن سے کبھی نہ کبھی میں بھی گزر چکا ہوں۔ ایک مصنف کے مشاہدات، تجربات اور احساسات اس کی کتابوں کے عنوانات سے جھلکتے ہیں۔
بہترین افسانے لکھنے کا فن کیا خداداد صلاحیت ہے یا اِسے مشق سے سیکھا جا سکتا ہے؟
محمد علیم اسماعیل:بہترین افسانے لکھنے کا فن خداداد صلاحیت اور مسلسل مشق، دونوں کا امتزاج ہے۔ بعض افراد میں گہرے مشاہدے کی صلاحیت، احساسات کو لفظوں میں ڈھالنے کی قابلیت اور تخیل کی پرواز پیدائشی ہوتی ہے، مگر صرف خداداد صلاحیت کافی نہیں ہوتی۔ افسانہ نگاری ایک فن ہے، جس میں تکنیکی باریکیوں، اسلوب، ساخت اور کردار نگاری کو سیکھنا پڑتا ہے۔ مطالعہ، مشق اور تنقید کو قبول کرنا ضروری ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ فن ارتقا کی منزلیں طے کرتا جاتا ہے۔ ایک سچا افسانہ نگار عمر بھر سیکھتا رہتا ہے، کیونکہ افسانہ زندگی اور سائنس کی طرح مسلسل بدلتا رہتا ہے۔
اردو زبان سے نئی نسل کچھ بیزار دکھائی دیتی ہے، آپ کسے قصور وار قرار دیں گے؟
محمد علیم اسماعیل:جی ہاں!! نئی نسل کی اردو سے بیزاری ایک سنگین مسئلہ ہے۔ میں اس صورتِ حال کا ذمہ دار صرف نئی نسل کو نہیں سمجھتا۔ خاندان، تعلیمی ادارے، میڈیا اور ریاستی منصوبے سب برابر کے شریک ہیں۔ گھروں میں اردو بولنے کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے۔ اسکولوں میں اردو کو ثانوی زبان سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی میڈیم اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کا چلن عام ہو رہا ہے۔ میڈیا، اردو کی جگہ انگریزی اور دیگر زبانوں کو ترجیح دے رہا ہے۔ ریاستی پالیسیوں میں اردو کو انداز کیا جاتا ہے۔ ادب کی طرف راغب کرنے والے پروگرام کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اردو سے دوری کا سبب بدلتی ہوئی ترجیحات بھی ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے شعوری کوشش کرنی ہوگی۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔
سعادت حسن منٹو کی افسانچہ نگاری اور افسانہ نگاری کیوں تذکرے میں رہتی ہے؟
محمد علیم اسماعیل:سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری اور افسانچہ نگاری اس لیے تذکرے میں رہتی ہے کیونکہ انھوں نے انسانی نفسیات کو بے باکی سے پیش کیا ہے۔ منٹو نے معاشرے کی سچائیاں بغیر پردے کے دکھائیں۔ ان کے کردار حقیقت سے قریب ہیں۔ وہ چھوٹے جملوں میں بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ ان کے افسانچوں اور افسانوں نے مختصر ہوتے ہوئے بھی بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ منٹو نے تقسیم، جنس، ظلم اور معاشرے کے دوغلے پن کو موضوع بنایا۔ ان کے فن کی سچائی، اور ان کی تخلیقی جرات نے انہیں اردو ادب کا ناقابلِ فراموش نام بنا دیا ہے۔
بطور ادیب معاشرے کو بہتر بنانے میں خود کو کتنا ذمہ دار سمجھتے ہیں؟
محمد علیم اسماعیل:بطور ادیب میں خود کو معاشرے کی اصلاح کا ذمہ دار نہیں سمجھتا۔ میرا کام یہ ہے کہ جو کچھ میں اپنے آس پاس دیکھوں، اسے سچائی کے ساتھ بیان کردوں۔ ادیب صرف مشاہدہ کرتا ہے اور اظہار کرتا ہے۔ سماج کو خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کیسا بننا چاہتا ہے۔ قلم کار کا فرض حقیقت کو بیان کرنا ہے، اصلاح کی ذمہ داری اس پر عائد نہیں ہوتی۔ لیکن ہاں!! قلمکار کی تحریروں سے شعور بیدار ہو سکتا ہے، لوگ سوچنے اور غور وفکر کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی کہانی کسی ایک شخص کی بھی سوچ بدل دے، تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ ادیب کو سچ لکھنا چاہیے، کیونکہ سچ ہی معاشرے کو بہتر بنانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
پسندیدہ مشاغل کیا ہیں اور فرصت کے لمحات میں کن ادیبوں کو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
محمد علیم اسماعیل:میرے پسندیدہ مشاغل میں مطالعہ، افسانہ/افسانچہ نگاری اور مشاہدہ شامل ہیں۔ میں خاموشی میں بیٹھ کر نہیں بلکہ چلتے پھرتے لکھتا ہوں۔ سڑک پر چلتے ہوئے اگر کوئی واقعہ یا منظر مجھے متاثر کرتا ہے تو میں فوراً اپنے موبائل میں اسے نوٹ کر لیتا ہوں۔ بعد میں فرصت کے لمحات میں اسے تخلیقی پیرائے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے پریم چند، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، انتظار حسین، سلام بن رزاق اور سریند پرکاش کو پڑھنا پسند ہے۔ ان کے افسانے میرے اندر ایک فکری ارتعاش پیدا کرتے ہیں اور حقیقت کو نئے زاویے سے دیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
والدین کے ساتھ جذباتی تعلق نے آپ کو کتنا تبدیل کیا ہے؟
محمد علیم اسماعیل:والدین کے ساتھ جذباتی تعلق زندگی کی سب سے گہری اور معنی خیز وابستگیوں میں سے ہوتا ہے۔ انسان کا وجود صرف جسمانی حقیقت نہیں، بلکہ احساسات، جذبات اور خیالات کا ایک مجموعہ ہوتا ہے، اور والدین اس وجود کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی محبت ایک آئینہ ہوتی ہے جس میں ہم اپنی اصل پہچان دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے تجربات زندگی کے پوشیدہ اسباق کھولتے ہیں اور ان کی دعائیں اندھیرے راستوں کو روشن کرتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ والدین سے جذباتی تعلق نے مجھے نہ صرف انسان بنایا بلکہ میری سوچ کو وسعت دی اور زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کی۔
کئی بار سنا ہے کہ کوئی ’’رائٹر بلاک‘‘ کا شکار ہو گیا ہے ایسا کیوں ہے، کیا ادیبوں کا ذہن بانجھ ہو سکتا ہے؟
محمد علیم اسماعیل:رائٹرز بلاک ایک عام تخلیقی رکاوٹ ہے جو اکثر ادیبوں کو پیش آتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ذہن وقتی طور پر خیالات، جذبات یا الفاظ کو ترتیب دینے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں: جذباتی دباؤ، ذہنی تھکن، اردگرد کا ماحول، یا خود پر غیر ضروری دباؤ ڈالنا۔ لیکن یہ کہنا کہ ادیب کا ذہن بانجھ ہو گیا ہے، درست نہیں۔ ذہن وقتی طور پر خاموش ضرور ہو سکتا ہے، مگر مکمل طور پر بانجھ نہیں ہو سکتا۔ تخلیقی ذہن کو کبھی کبھی خاموشی اور تنہائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ نئے زاویے تلاش کر سکے۔
جامعات میں تحقیق کے معیار سے مطمئن ہیں؟
محمد علیم اسماعیل:جامعات میں تحقیق کا معیار کسی بھی معاشرے کی علمی ترقی کا آئینہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کچھ جامعات میں تحقیق کا معیار قابلِ تعریف ہے، جہاں نئے نظریات اور سائنسی ایجادات پر کام ہو رہا ہے، لیکن عمومی طور پر تحقیق کی سطح کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تحقیق محض مقالہ جات کی تکمیل کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کا مقصد حقیقی مسائل کا حل تلاش کرنا، ہونا چاہیے۔ وسائل کی کمی اور تحقیقاتی ماحول کی عدم موجودگی جیسے مسائل کو دور کرنا ہوگا تاکہ علمی و تحقیقی میدان میں ترقی ممکن ہو سکے۔ تعلیمی اداروں کو تحقیق کی حوصلہ افزائی اور معیار بلند کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہیے۔
زندگی میں کن خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں؟
محمد علیم اسماعیل:زندگی خوابوں، خواہشوں اور جدوجہد کا حسین امتزاج ہے۔ میری بے شمار خواہشات میں ایک خواہش یہ بھی ہے کہ میرے الفاظ لوگوں کے دلوں کو چھو سکیں، ان کی سوچ میں تبدیلی لا سکیں اور انہیں حقیقت کے قریب لے جا سکیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میری کہانیاں وہ پْل بنیں جو انسان کو خود سے، اپنے جذبات سے جوڑیں۔ ایک اور خواہش یہ ہے کہ میں نئے موضوعات پر قلم اٹھا سکوں، ایسے افسانے تخلیق کر سکوں جو پڑھنے والوں کو نہ صرف محظوظ کریں بلکہ انہیں سوچنے پر بھی مجبور کر دیں۔ میں لکھنے اور پڑھنے کے عمل کو ایک تعمیری سفر میں بدلنے کا خواہشمند ہوں۔
قارئین کے نام کیا پیغام دیں گے؟
محمد علیم اسماعیل:میں اپنے قارئین سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ آپ ہی ہیں جو میرے لفظوں میں جان پھونکتے ہیں، انہیں معنی عطا کرتے ہیں۔ آپ کی دلچسپی میرے قلم کو حرکت میں رکھتی ہے، آپ کی محبت مجھے لکھنے کا حوصلہ دیتی ہے، اور آپ کی تنقید میری رہنمائی کا ذریعہ بنتی ہے۔ کہانیاں صرف لکھنے والے کی نہیں ہوتیں، وہ پڑھنے والوں کی بھی ہوتی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ پڑھنے کا عمل یک طرفہ نہ رہے، بلکہ ایک مکالمہ بنے، جہاں خیالات کا تبادلہ ہو اور الفاظ دل کو چھو کر احساسات کو بیدار کریں۔
۔ختم شد۔