فاضل شفیع بٹ
” کتنے سالوں میں یہ گھر، جو کسی حویلی سے کم نہیں، تعمیر کیا ہے آپ نے؟
” کس نے۔۔۔ میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ہاں ۔۔ ہاں ۔۔ آپ نے۔۔۔۔۔؟
"میں نے چار پانچ سال میں اپنے گھر کا پورا کام مکمل کیا۔”
"مجھے معلوم ہے ۔۔ آپ نے اپنی ساری جمع پونجی اس گھر کی تعمیر میں صرف کی ہے ۔آپ نے اپنے پیٹ پر پتھر رکھ کر یہ خوبصورت بنگلہ تعمیر کیا ہے۔آپ کے گھر میں ہر ایک آسائش موجود ہے۔سونے کے لیے شاندار بستر ،کھانے پینے کے لیے تانبے اور پیتل کے برتن ،گویا یہ گھر آپ کے لیے ایک سائبان کی مانند ہے۔اور اگر آپ کا یہ گھر پل بھر میں زمین بوس ہو جائے یا آگ کی نذر ہو جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟”
"یہ کیا بے ہودہ بکواس کر رہے ہو ۔۔۔۔؟ یہ گھر مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔اس گھر سے میری یادیں، میری ساری دنیا منسلک ہے ۔تم کو نہیں معلوم میں نے کس طرح اپنی ساری عمر محنت اور لگن سے کام کرکے،روپے جمع کر کے اس گھر کی تعمیر کو تکمیل تک پہنچایا ہے ۔یہ گھر میرا سارا سنسار ہے ۔اس بے ہودہ بکواس کے لیے میں تمہاری زبان حلق سے کھینچ کر باہر نکالوں گا ”
"ہاہاہا۔۔۔۔یہ بکواس نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔اپنے گھر سے اتنا لگاؤ اور میرا کیا ۔۔۔۔۔؟؟
کس طرح آپ نے میرے بسے بسائے گھر کو ایک چٹکی میں اجاڑ دیا ۔۔۔کیا آپ کو میرے ان تین ننھے ننھے بچوں کا خیال تک نہ آیا ؟
کیا آپ کے دل کو ذرا بھی گراں نہ گزرا جب آپ نے میرے چھوٹے سے گھر کو ایک ٹھوکر میں زمین بوس کر دیا ۔
آپ کو معلوم بھی ہے کہ میں نے وہ گھر کتنی مصیبتوں کو گلے لگا کر تعمیر کیا تھا۔۔۔۔۔ ؟
میں جھلستی گرمی میں اپنی چونچ میں مٹی کے چھوٹے چھوٹے تنکے لا کر آپ کے مکان کی چھت پر لا کر جمع کرتی رہی ۔دو تین مہینوں میں مٹی اور چھوٹی چھوٹی ٹہنیوں کا بندوبست کیا۔۔۔اس کے بعد گھاس پھوس کا انتظام کیا اور بالآخر آپ کے مکان کی چھت پر ایک گھونسلہ بنانے میں کامیاب ہوئی ۔۔۔پھر انڈے دیے۔۔۔ان کی دیکھ بھال کرنے میں سارا دن بیت جاتا تھا ۔۔۔۔آخر ان انڈوں سے میرے ننھے ننھے بچے پیدا ہوئے ۔۔۔۔میں بہت خوش تھی ۔۔”
آپ کی حویلی کو دیکھ کر مجھے یوں گمان ہوتا تھا کہ میرے بچے بھی اسی حویلی کے باسی ہیں ۔بچوں کو گھونسلے میں چھوڑ کر میں بے فکر ان کے لیے دانہ پانی تلاش کر کے واپس لوٹ کر آتی تھی ۔۔۔ٹھیک آپ کی طرح میں بھی اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہی تھی ۔
بس چند دنوں کی بات تھی ،میرے بچے جوں ہی اڑنے کے قابل ہو جاتے، ہم سب آپ کے گھر سے ہمیشہ کے لیے چلے جاتے ۔
لیکن آپ نے بڑی بے رحمی سے ہمارے گھونسلے کو اپنے مکان کی چھت سے نیچے گرا دیا ۔۔میرے بچے، جو ابھی اڑنا بھی نہیں جانتے تھے ،آپ کے مکان کی چھت سے کود گئے اور میرا ایک ننھا سا بچہ بری طرح زخمی ہوا ،اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ۔۔
کیا واقعی آپ اشرف المخلوقات ہیں۔۔۔۔۔۔؟ ”
"وہ۔۔وہ۔۔میں نے اپنی بیوی کے کہنے پر یہ سب کچھ کیا۔میری بیوی کا ماننا تھا کہ تمہارے گھونسلے کی وجہ سے ہمارے گھر میں چھوٹے چھوٹے کیڑے نمودار ہوئے ہیں۔محض اپنی بیوی کا دل رکھنے کے لیے مجھ سے یہ گناہ سرزد ہوا ..مجھے معاف کر دو ”
"معافی اپنے اللہ سے مانگو ۔۔وہ بڑا رحیم ہے ۔۔
لیکن یہ بات یاد رکھو کہ آپ نے میرے ساتھ سخت ظلم کیا ہے۔آپ انسان کہنے کے حقدار نہیں۔۔
خیر میں تو اپنے لیے کسی اور مکان کی چھت ڈھونڈ لوں گی ۔۔پھر ایک دو ماہ میں اپنا نیا گھونسلہ تیار کر لوں گی اور ہاں اگر آپ کے گھر کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آئے تو آپ کا کیا ہوگا ؟”
حمید ایک جھٹکے کے ساتھ بستر سے اچھل پڑا۔ وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اس نے کل رات ایک ابابیل کا گھونسلہ اپنی بیوی کے کہنے پر مکان کی چھت سے دور اپنے لان میں پھینکا تھا۔ وہ اپنا سر پکڑے ہوئے تھا کہ کچن سے اس کی بیوی کی تیز آواز آئی:
"ارے حمید ۔۔صبح کے آٹھ بج چکے ہیں ۔۔خدارا اب تو جاگ جاؤ ۔۔دیکھو گھونسلا برباد ہوتے ہی وہ چھوٹے چھوٹے کیڑے ایک دم سے غائب ہو گئے ہیں”
ززز