میں نے فیصلے خود ہی لیے

شیخ افلاق حسین
ترال پلوامہ، کشمیر

ایک دن کی بات ہے کہ رحمان کو گھر والے الگ بیٹھنے کا کہتے ہیں اور رحمان اپنی بیوی جس کا نام بتول ہوتا ہے، اُسی سے مشورہ کرنے کی غرض سے بات کرنا شروع کرتا ہے لیکن جونہی رحمان اس موضوع کی اور آتا ہے تو بیوی کہتی ہے کہ مجھے اس مسئلے سے دور ہی رکھنا یعنی مجھ سے اس معاملے میں مشورہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سُن کہیں نہ کہیں رحمان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے کہ آخر میں مشورہ کروں تو کس سے کروں۔۔۔۔ میں بات کروں تو کس سے کروں۔ اب رحمان اپنے آپ سے مشورہ کرتا ہے کہ میں الگ ہوکر رہوں یا اپنے والدین کے ساتھ لیکن رحمان سوچنے کے دوران دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ گھر والے تو مجھ سے خفا ہیں اور مجھے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر کسی فیصلے پر نہ پہنچا۔۔۔۔جب کچھ نہ بن پایا تو اپنے کمرے سے باہر نکل کر سیدھے اپنے دوست کے پاس جا کر اُسے سارا واقعہ بیان کرتا ہے کہ میرے حالات کیا اور کیسے ہیں۔ دوست اس کی باتوں کو نظر انداز کرتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ رحمان کے دوست کو یہ علم تھا کہ رحمان گھر والوں سے الگ ہو کر اپنے گھر اور گھر والوں کی ذمہ داریاں بہتر انداز سے نبھانے میں کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ وہ ان سب چیزوں سے بے خبر تھا جو گھر چلانے کے لیے درکار ہوتی ہیں،، اسی لیے رحمان کا دوست، رحمان کی باتوں پر دھیان نہیں دیتا ہے لیکن دوسری طرف رحمان جو اپنے دوست سے خفا ہو کر گھر کی اور چلا جاتا ہے مگر پریشانی کے اُس عالم سے گزر رہا تھا جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بہرحال کئی دن گزر جانے کے بعد رحمان کی بیوی میکے چلی جاتی ہے اور اسی بات کا فائدہ رحمان کے گھر والے اُٹھاتے ہیں یعنی رات کا کھانا کھانے کے وقت رحمان کے گھر والے رحمان کو بیوی کی ساری غلطیاں بیان کرتے ہیں کہ اس نے ایسا کیا، اس نے ویسا کیا لیکن رحمان نے اپنی بیوی کا دفاع وہاں تک کیا جہاں تک ممکن تھا۔۔۔ رحمان نے دفاع اس لیے کیا کہ وہ جانتا تھا کہ میری بیوی اتنی غلط نہیں ہے جتنا میرے گھر والے بیان کر رہے ہیں۔ اب رحمان کسی کو کہے بغیر یہ فیصلہ لیتا ہے کہ میرے اور میری بیوی کے لیے بہتر ہے کہ ہم الگ ہی اپنی زندگی بسر کریں تاکہ کسی قسم کی پریشانی یا کسی قسم کی لڑائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
رحمان اپنی بیوی سے رابطہ کرتا ہے کہ تم آج ہی گھر آ جاؤ کیونکہ میں نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتول وہاں سے جواب میں کہتی ہے :
تم نے کس سے کہہ کر یہ فیصلہ لیا ہے۔
میں نے خود سے ہی فیصلہ کیا کہ ہم اپنی زندگی الگ ہی بسر کریں،،،، رحمان نے کہا۔
ایسا کیوں؟؟؟ بیوی نے پوچھا۔
کس سے بات کرتا اور کیوں کرتا،،،، رحمان نے جواب میں کیا۔
کیوں مجھ سے مشورہ کرتے یا میں مشورے کے لائق نہیں تھی،،،، بیوی نے کہا۔
تم سے مشورہ کرنے سے بہتر ھے کہ میں کسی پتھر سے مشورہ لوں،،،، رحمان نے جواب میں کہا۔
بیوی یہ جواب سن کر غصے میں آ کر کمرے سے باہر نکلتی ہے اور کسی کو کچھ کہے بغیر الگ رہنے کی تیاری کرتی ہے مگر اپنے شوہر سے بات کرے بغیر اپنا کام پورا کرکے آرام کرنے کے ارادے سے اپنے نئے کمرے میں داخل ہوتی ہے لیکن وہاں سوچ کر پریشان ہو جاتی ہے کہ ہمیں گھر والوں نے کچھ نہیں دیا اور میرا شوہر اُتنا کماتا بھی نہیں ہے اور نا ہی میں پڑھی لکھی ہوں جس سے میں کچھ مدد کرتی۔۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے چین و سکون ہی اُڑ گیا۔ اب رات کو اپنا انا چھوڑ کر اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ ہم اپنا گزارا کیسے کریں گے۔
کیوں تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے،،، شوہر نے جواب میں کہا۔
آپ پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے لیکن اپنی قسمت پر اعتماد نہیں ہے،،،، بتول نے کہا۔
کیوں اپنی قسمت پر بھروسہ نہیں ہے،،،، شوہر نے پوچھا۔
پہلے تمہارے گھر والوں کی زیادتی، پھر تمہارا مجھ سے خفا رہنا اور میرے میکے والوں کے رویے، یہ سب میری قسمت کے خوفناک چیزیں ہیں،،،، بیوی نے روتے ہوئے جواب میں کہا۔
رحمان نے کہہ کر اپنی بیوی کو تسلی دیتا ہے کہ ہم تو صرف دو بندے ہیں،،، اس سال اگر کسی قسم کے مشکلات برداشت کرنے بھی پڑے تو اگلے سال تو بہار ہی بہار ہوگی اور زیادہ سوچا بھی مت کرو، اور اب آرام کرو، کل سویرے اُٹھنا اور نماز ادا کر کے پھر چائے بنانا کیونکہ جب آغاز بہتر ہوگا تو اختتام بھی بہترین ہوگا البتہ یہ بات بھی ذہن نشین کرنا کہ کسی سے کوئی گِلہ مت کرنا اور نہ ہی کسی سے تلخ کلامی کرنا۔۔۔ باقی جو ہوگا،،، اچھا ہو ہوگا اور اچھے کے لیے ہو ہوگا۔
اب کئی مہینے گزر جانے کے بعد رحمان کی سرکاری نوکری لگ جاتی ہے اور اسی کے ساتھ تمام مسائل ختم ہو جاتے ہیں اور اس گھر کی دنیا ہی بدل جاتی ہے اور یہ تقدیر اگر بدل جاتی ہے تو صرف اس وجہ سے کہ رحمان نے الگ رہنے کا فیصلہ خود لیا تھا کیونکہ کوئی بھی اس حق میں نہیں تھا کہ رحمان الگ رہے۔۔۔ کوئی رحمان کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ یہ گھر چلا سکے لیکن رحمان نے فیصلہ لیا اور کر کے دکھایا۔
کئی سال گزر جانے کے بعد ایک دن رحمان قلم اُٹھاتا ہے اور لکھنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔۔ رحمان نے ایک کتاب شائع کی جس میں رحمان نے اپنی زندگی کے تمام گوشوں کو بیان کیا اور نام ” میں نے فیصلے خود ہی لیے “ رکھا اور اس کتاب کو لوگوں نے بہت پیار دیا اور مصنف کو اس کتاب کے لیے انعام سے بھی نوازا۔
ززز

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں

گزشتہ مضمون
اگلا مضمون

تازہ ترین خبریں

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

وادی کے جھیلوں کی چمک، اور فضاؤں کی مہک آپ کو بلا رہی ہے

جنگ نیوز ڈیسک سرینگر//جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی ایڈیشنل...

تازہ ترین خبریں

کرونا کی واپسی؟ احتیاط ابھی سے!

جموں و کشمیر میں کووڈ-19 کے 8 نئےمعاملات رپورٹ...

کشمیر کی سبز گرمی: ایک ادھورا خواب

فردوس احمد ملک وادی کشمیر کی گرمی الگ ہی طرح...

کشمیر کی چیریز پہلی بار سعودی عرب برآمد

جنگ نیوز ڈیسک جڈہ/جموں و کشمیر سے اعلیٰ معیار کی...

G7اجلاس: ایران عدم استحکام کا ذمہ دار قرار، اسرائیل کی حمایت کا اعادہ

جنگ نیوز ڈیسک G7ممالک کے سربراہان نے البرٹا میں جاری...

وادی کے جھیلوں کی چمک، اور فضاؤں کی مہک آپ کو بلا رہی ہے

جنگ نیوز ڈیسک سرینگر//جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی ایڈیشنل...

میں نے فیصلے خود ہی لیے

شیخ افلاق حسین
ترال پلوامہ، کشمیر

ایک دن کی بات ہے کہ رحمان کو گھر والے الگ بیٹھنے کا کہتے ہیں اور رحمان اپنی بیوی جس کا نام بتول ہوتا ہے، اُسی سے مشورہ کرنے کی غرض سے بات کرنا شروع کرتا ہے لیکن جونہی رحمان اس موضوع کی اور آتا ہے تو بیوی کہتی ہے کہ مجھے اس مسئلے سے دور ہی رکھنا یعنی مجھ سے اس معاملے میں مشورہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سُن کہیں نہ کہیں رحمان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے کہ آخر میں مشورہ کروں تو کس سے کروں۔۔۔۔ میں بات کروں تو کس سے کروں۔ اب رحمان اپنے آپ سے مشورہ کرتا ہے کہ میں الگ ہوکر رہوں یا اپنے والدین کے ساتھ لیکن رحمان سوچنے کے دوران دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ گھر والے تو مجھ سے خفا ہیں اور مجھے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر کسی فیصلے پر نہ پہنچا۔۔۔۔جب کچھ نہ بن پایا تو اپنے کمرے سے باہر نکل کر سیدھے اپنے دوست کے پاس جا کر اُسے سارا واقعہ بیان کرتا ہے کہ میرے حالات کیا اور کیسے ہیں۔ دوست اس کی باتوں کو نظر انداز کرتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ رحمان کے دوست کو یہ علم تھا کہ رحمان گھر والوں سے الگ ہو کر اپنے گھر اور گھر والوں کی ذمہ داریاں بہتر انداز سے نبھانے میں کامیاب نہیں ہوگا کیونکہ وہ ان سب چیزوں سے بے خبر تھا جو گھر چلانے کے لیے درکار ہوتی ہیں،، اسی لیے رحمان کا دوست، رحمان کی باتوں پر دھیان نہیں دیتا ہے لیکن دوسری طرف رحمان جو اپنے دوست سے خفا ہو کر گھر کی اور چلا جاتا ہے مگر پریشانی کے اُس عالم سے گزر رہا تھا جس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بہرحال کئی دن گزر جانے کے بعد رحمان کی بیوی میکے چلی جاتی ہے اور اسی بات کا فائدہ رحمان کے گھر والے اُٹھاتے ہیں یعنی رات کا کھانا کھانے کے وقت رحمان کے گھر والے رحمان کو بیوی کی ساری غلطیاں بیان کرتے ہیں کہ اس نے ایسا کیا، اس نے ویسا کیا لیکن رحمان نے اپنی بیوی کا دفاع وہاں تک کیا جہاں تک ممکن تھا۔۔۔ رحمان نے دفاع اس لیے کیا کہ وہ جانتا تھا کہ میری بیوی اتنی غلط نہیں ہے جتنا میرے گھر والے بیان کر رہے ہیں۔ اب رحمان کسی کو کہے بغیر یہ فیصلہ لیتا ہے کہ میرے اور میری بیوی کے لیے بہتر ہے کہ ہم الگ ہی اپنی زندگی بسر کریں تاکہ کسی قسم کی پریشانی یا کسی قسم کی لڑائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
رحمان اپنی بیوی سے رابطہ کرتا ہے کہ تم آج ہی گھر آ جاؤ کیونکہ میں نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتول وہاں سے جواب میں کہتی ہے :
تم نے کس سے کہہ کر یہ فیصلہ لیا ہے۔
میں نے خود سے ہی فیصلہ کیا کہ ہم اپنی زندگی الگ ہی بسر کریں،،،، رحمان نے کہا۔
ایسا کیوں؟؟؟ بیوی نے پوچھا۔
کس سے بات کرتا اور کیوں کرتا،،،، رحمان نے جواب میں کیا۔
کیوں مجھ سے مشورہ کرتے یا میں مشورے کے لائق نہیں تھی،،،، بیوی نے کہا۔
تم سے مشورہ کرنے سے بہتر ھے کہ میں کسی پتھر سے مشورہ لوں،،،، رحمان نے جواب میں کہا۔
بیوی یہ جواب سن کر غصے میں آ کر کمرے سے باہر نکلتی ہے اور کسی کو کچھ کہے بغیر الگ رہنے کی تیاری کرتی ہے مگر اپنے شوہر سے بات کرے بغیر اپنا کام پورا کرکے آرام کرنے کے ارادے سے اپنے نئے کمرے میں داخل ہوتی ہے لیکن وہاں سوچ کر پریشان ہو جاتی ہے کہ ہمیں گھر والوں نے کچھ نہیں دیا اور میرا شوہر اُتنا کماتا بھی نہیں ہے اور نا ہی میں پڑھی لکھی ہوں جس سے میں کچھ مدد کرتی۔۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے چین و سکون ہی اُڑ گیا۔ اب رات کو اپنا انا چھوڑ کر اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ ہم اپنا گزارا کیسے کریں گے۔
کیوں تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے،،، شوہر نے جواب میں کہا۔
آپ پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے لیکن اپنی قسمت پر اعتماد نہیں ہے،،،، بتول نے کہا۔
کیوں اپنی قسمت پر بھروسہ نہیں ہے،،،، شوہر نے پوچھا۔
پہلے تمہارے گھر والوں کی زیادتی، پھر تمہارا مجھ سے خفا رہنا اور میرے میکے والوں کے رویے، یہ سب میری قسمت کے خوفناک چیزیں ہیں،،،، بیوی نے روتے ہوئے جواب میں کہا۔
رحمان نے کہہ کر اپنی بیوی کو تسلی دیتا ہے کہ ہم تو صرف دو بندے ہیں،،، اس سال اگر کسی قسم کے مشکلات برداشت کرنے بھی پڑے تو اگلے سال تو بہار ہی بہار ہوگی اور زیادہ سوچا بھی مت کرو، اور اب آرام کرو، کل سویرے اُٹھنا اور نماز ادا کر کے پھر چائے بنانا کیونکہ جب آغاز بہتر ہوگا تو اختتام بھی بہترین ہوگا البتہ یہ بات بھی ذہن نشین کرنا کہ کسی سے کوئی گِلہ مت کرنا اور نہ ہی کسی سے تلخ کلامی کرنا۔۔۔ باقی جو ہوگا،،، اچھا ہو ہوگا اور اچھے کے لیے ہو ہوگا۔
اب کئی مہینے گزر جانے کے بعد رحمان کی سرکاری نوکری لگ جاتی ہے اور اسی کے ساتھ تمام مسائل ختم ہو جاتے ہیں اور اس گھر کی دنیا ہی بدل جاتی ہے اور یہ تقدیر اگر بدل جاتی ہے تو صرف اس وجہ سے کہ رحمان نے الگ رہنے کا فیصلہ خود لیا تھا کیونکہ کوئی بھی اس حق میں نہیں تھا کہ رحمان الگ رہے۔۔۔ کوئی رحمان کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ یہ گھر چلا سکے لیکن رحمان نے فیصلہ لیا اور کر کے دکھایا۔
کئی سال گزر جانے کے بعد ایک دن رحمان قلم اُٹھاتا ہے اور لکھنا شروع کر دیتا ہے۔۔۔۔ رحمان نے ایک کتاب شائع کی جس میں رحمان نے اپنی زندگی کے تمام گوشوں کو بیان کیا اور نام ” میں نے فیصلے خود ہی لیے “ رکھا اور اس کتاب کو لوگوں نے بہت پیار دیا اور مصنف کو اس کتاب کے لیے انعام سے بھی نوازا۔
ززز

مصنف کے بارے میں

ہمارے واٹس ایپ چینل کو جوائن کریں

گزشتہ مضمون
اگلا مضمون