ہلال بخاری
فلسطین کی گلیوں میں ہر طرف موت اور تباہی رقص کر رہی تھی۔
نور صبا، ایک ننھی سی پری، بے بس اور لاچار، جان بچانے کے لیے بھاگ رہی تھی۔ سر پر ایک کمبل اوڑھے، زخمی ماتھے سے خون اس کے نرم و ملائم چہرے پر بہہ رہا تھا۔ اس کی روشن آنکھیں آنسؤں سے بھری تھیں، مگر ہونٹوں پر پھر بھی مسکراہٹ تھی۔ کیونکہ وہ معصوم تھی۔
اب اس دنیا میں اس کا کوئی نہیں، سوائے اللہ کے۔
اس جنگ میں اس نے سب کچھ کھو دیا تھا۔ ابا، امی، بھائی… سب کی لاشیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ وہ کانپی، ڈری، لرزی۔ پھر کسی نے کہا، "بھاگ جا یہاں سے، اپنی جان بچا!”
اور وہ بھاگنے لگی۔
اس نے کئی بار حسرت بھری نگاہوں سے اپنے اجڑے آشیانے کی طرف مڑ کر دیکھا، لیکن وہاں اب اس کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔ وہ دوڑتی رہی، اسے معلوم نہیں تھا جانا کہاں ہے۔ کیونکہ وہ ننھی تھی، اور معصوم تھی۔
ایک چوک میں پہنچ کر وہ تھک ہار کر زمین پر بیٹھ گئی۔ وہاں کسی نے حالات حاضرہ جاننے کی غرض سے ایک شکستہ دیوار پر ٹی وی اسکرین لگا رکھی تھی۔ اس پر اسرائیلی لیڈر فتح مندی سے تقریر کر رہا تھا۔ لوگ خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے۔
یہ دیکھ کر نور صبا بھی تالیاں بجانے لگی۔
وہ ان کی زبان نہیں جانتی تھی، اور اس حقیقت سے بھی ناآشنا تھی کہ یہی لوگ اس کے دشمن ہیں۔
اسے معلوم نہ تھا کہ انہی سیاست دانوں کی وجہ سے وہ یتیم اور بے گھر ہوئی۔
وہ کیا جانے کہ دنیا کی خودساختہ مہذب اقوام کے رہنما اصل میں کتنے خونخوار درندے ہوتے ہیں؟
اسے کیا خبر کہ جو یہودی بیسویں صدی میں مظلوم تھے، اب ان کی ہی اولاد میں سے بہت سے لوگ اس اکیسویں صدی میں ظالم بن چکے ہیں؟
وہ کہاں جانتی ہے کہ کچھ لالچی لوگ دنیا میں حکمرانی اور اہمیت حاصل کرنے کے لیے آگ سے کھیلتے ہیں اور کروڑوں جانیں داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
اسے کیا معلوم کہ تاریخ عروج و زوال کی ایک داستان ہے، اور دنیا طاقت اور بے بسی کا ایک کھیل بھی ہے اور امتحان بھی۔
اسے ان سب باتوں سے کیا سروکار؟
وہ تو معصوم تھی۔
اس کے تو ابھی کھیلنے کے دن تھے۔
مگر نہ جانے کیوں ان بے رحم انسانوں کو ان معصوموں پر بھی رحم نہیں آتا۔
اچانک آسمان پر سے جنگی طیاروں کی آواز آئی تو اس کا دل پھر زور سے دھڑکنے لگا۔
اسے یاد آیا وہ منحوس لمحہ، جب ایسی ہی آوازوں کے بعد آسمان سے آگ برسی تھی۔ لمحوں میں ان کا بسایا گھر کھنڈر بن گیا تھا۔ ہر طرف لاشیں اور ملبہ ہی ملبہ تھا۔
وہ مزید رکے بغیر کمبل سر پر ڈالے بھاگنے لگی۔
اور تب تک بھاگتی رہی، جب تک جہازوں کی آوازیں بند نہ ہو گئیں۔
اسے کیا معلوم تھا کہ ایسی مصیبتوں کے دور میں، موت سے بھاگنا بے سود ہوتا ہے۔
کیونکہ وہ معصوم بچی تھی۔
ایک تنگ کوچے میں پہنچ کر، ایک اجنبی نے پوچھا:
"بچی، تم نے یہ کمبل اپنے سر پر کیوں لپیٹا ہوا ہے؟ کیا تم کو لگتا ہے کہ یہ تمہیں بچا سکتا ہے؟”
اس نے بڑی معصومیت سے جواب دیا:
"انکل، میں جانتی ہوں یہ کمبل مجھے نہیں بچا سکتا۔
لیکن جب آسمان سے وہ لرزا دینے والی آواز آتی ہے اور آگ کے گولے گرتے ہیں، تو میں اس کمبل کو زور سے لپیٹ لیتی ہوں…
اپنی آنکھیں اور کان بند کر لیتی ہوں، اور سمجھتی ہوں کہ میں بھی امی، ابو اور باقی سب کی طرح مر چکی ہوں۔
اور اب یہ آوازیں اور گولے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔”
یہ کہتے ہوئے وہ ایسے انداز میں مسکرائی کہ سننے والوں کے دل چھلنی ہو گئے۔
اس کی آنکھیں اب بھی اشکبار تھیں، مگر ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
کیونکہ وہ معصوم تھی۔
اس دنیا کے اقتدار کے پجاریوں نے شاید معصوموں کے خون سے کھیلنا اپنا مشغلہ بنا لیا ہے۔
نور صبا کو معلوم نہیں تھا کہ اس کے ننھے دل کی چاہت، اور معصوم ذہن کی کوششوں کے باوجود، تقدیر نے شاید اس کے نصیب میں بچپن میں ہی خوف اور موت لکھ دی ہے۔
کیونکہ وہ معصوم تھی۔