فاضل شفیع بٹ
اکنگام ،انت ناگ
ایک زوردار چیخ ہسپتال کے در و دیوار سے ٹکراکر گونج اٹھی۔اس چیخ میں درد و کرب تھا ۔وہ پچھلے دو ماہ سے کوما میں بے سدھ لاش کی مانند ہسپتال کے ایک بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی ۔اس کی غیر متوقع چیخ سے جاوید ششدر رہ گیا۔سمرن نیم مردہ حالت میں زور زور سے چلا رہی تھی:
"ابو۔۔۔۔ مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہاں ہیں آپ؟”
جاوید سمرن کے سرہانے بیٹھ کر اس کو جھوٹی تسلی دیتا رہا ۔لیکن سمرن پاگلوں کی طرح اپنے ماں باپ کا پوچھ رہی تھی ۔آج سے دو ماہ قبل سمرن اپنے والدین کے ہمراہ پکنک پر گئی تھی۔واپسی پر ان کی گاڑی کے ساتھ ایک دل گزار حادثہ پیش آیا, جس میں سمرن کے والد اور ان کی والدہ کی موقع پر ہی موت واقع ہوئی تھی اور سمرن کو تشویش ناک حالت میں لا کر ہسپتال میں بھرتی کیا گیا تھا۔آج دو ماہ بعد سمرن نے موت کو شکست دے کر نئے سرے سے دنیا میں قدم رکھا تھا اور اپنی آنکھیں کھولتے ہی وہ اپنے ماں باپ کی ایک نگاہ کے لیے پیچ و تاب کھا رہی تھی۔
جاوید سمرن کے بچپن کا دوست تھا بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے اور دونوں ایک دوسرے سے بے انتہا محبت بھی کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جاوید پچھلے دو ماہ سے ہسپتال میں سمرن کے ہوش میں آنے کا منتظر تھا اور آج سمرن کے ہوش میں آتے ہی جاوید خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا۔ڈاکٹر نے سمرن کا باریکی سے معائنہ کیا اور جاوید سے مخاطب ہو کر کہا :
"اللہ کا شکر ہے کہ سمرن مشکل ترین ہیلتھ کنڈیشنز کے بعد بالآخر موت کے منہ سے باہر نکل آئی ہےلیکن جاوید صاحب مجھے یہ کہہ کر بہت دکھ ہو رہا ہے کہ سمرن اب کبھی ماں نہیں بن سکتی۔ماں کی مامتا شاید اس کے نصیب کا حصہ نہیں ہے۔خیر سمرن کی یہ نئی زندگی آپ کو مبارک ہو”
ڈاکٹر کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی جاوید کی ساری خوشیاں ایک دم سے ماند پڑ گئیں۔اس کے سجے سجائے خواب گویا پل بھر میں زمین بوس ہو گئے۔
جاوید نے دل پر پتھر رکھ کر سمرن کو اُس دل دوز سڑک حادثے کے بارے میں ساری تفصیلات فراہم کیں اور ساتھ میں سمرن کو یہ بھی بتایا کہ حادثے کی وجہ سے اس کی کوکھ ہمیشہ ویران رہے گی۔جاوید نے سمرن کو اپنی باہوں میں بھینچ لیا ،اس کے گالوں کو پیار سے تھپتھپایا اور زندگی کے ہر موڑ پر اس کا ساتھ نبھانے کی قسم بھی کھا لی ۔
ہسپتال سے چھوٹنے کے بعد سمرن ایک دم سے ٹوٹ گئی اور شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہوئی ۔سمرن اب اپنی بڑی بہن اور چھوٹے بھائی کے ہمراہ چچا کے گھر میں سکونت پذیر تھے ۔حالانکہ ان کا چچا محمد علی ایک شریف النفس آدمی تھا لیکن وہ سمرن کی یادوں سے اس کے ماں باپ کا نقش مٹانے میں ناکام رہا۔اس ذہنی کوفت سے راحت حاصل کرنے کے لیے محمد علی نے سمرن کو اپنی بڑی بہن کے ہمراہ سیر و تفریح کی خاطر کانپور شہر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور سمرن اپنی بڑی بہن شیرازہ کے ساتھ کانپور کے لئے روانہ ہوئے۔
سمرن اور شیرازہ کانپور میں سیر و تفریح سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔سمرن کے غم آلود چہرے پر نکھار آنے لگا۔وہ دھیرے دھیرے زندگی کی المناکیوں کے دئے ہوئے گہرے زخموں کو سلنے میں کامیاب ہو رہی تھی۔
اسی اثناء میں جاوید نے محمد علی کے ساتھ اچھے مراسم قائم کیے ۔جاوید ایک سرکاری ملازم ہونے کے ساتھ ساتھ سماج کے ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتا تھا ۔جاوید محمد علی کو اپنے فریب میں گرفتار کرنے میں کامیاب رہا۔کانپور سے واپسی کے چند دن بعد محمد علی کے گھر لڑکی کا ہاتھ مانگنے جاوید کے ماں باپ وارد ہوئے ۔
شیرازہ جو سمرن سے ایک سال بڑی تھیں،کافی خوب رو لڑکی تھی ۔اس کا ناک نقشہ دلکش اور تیکھا تھا ۔محمد علی اور جاوید کے والدین نے آپس میں بات چیت کر کے آخر یہ طے پایا کہ جاوید کی شادی شیرازہ سے ہوگی کیونکہ سمرن ماں بننے کی اہلیت کھو چکی ہے۔دراصل جاوید نے محمد علی کو سمرن کی غیر موجودگی میں حادثے سے جڑی سب باتوں سے آگاہ کیا تھا اور شیرازہ سے شادی کرنے کی اپنی دلی خواہش کو محمد علی کے سامنے رکھا تھا۔
اس دلخراش سڑک حادثے کے باعث سمرن نے اپنے والدین کے ساتھ ساتھ آج اپنی محبت کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔جاوید قطعی نہ چاہتا تھا کہ اس کی شادی ایک بانجھ عورت سے ہو اور پھر زندگی بھر لوگوں کے طعنوں سے اس کا دل چھلنی ہوتا رہے۔
جاوید اور شیرازہ کی شادی ہوئی اور سمرن نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے شہر کا رخ کیا اور شہر میں کرائے کے مکان میں رہنے لگی۔سمرن کو تنہائی سے لگاؤ ہونے لگا ۔تنہائی نے سمرن کو اپنی آغوش میں لیا۔ سمرن نے روح کی گہرائیوں میں تنہائی کو مسلط کیا اور اپنی ماضی کے دلخراش یادوں کے لمس میں اپنی زندگی بسر کر نے لگی۔
سسرال میں چند ماہ گزارنے کے بعد ہی شیرازہ نے سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔شیرازہ خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی کہ اچانک اس کو ابکائی محسوس ہوئی۔ آج ڈھیر ساری خوشیوں نے شاید ایک ساتھ جاوید اور شیرازہ کو اپنی تحویل میں لیا تھا۔شیرازہ کی حاملہ ہونے والی خبر نے گھر میں شادمانی کا ماحول قائم کیا۔ چند ماہ بعد شیرازہ نے ایک خوبصورت لڑکے کو جنم دیا۔
جاوید کا تبادلہ ہوا اور شیرازہ بھی جاوید کے ہمراہ اپنا تبادلہ کرانے میں کامیاب ہوئی۔ دونوں میاں بیوی دوسرے شہر میں عارضی طور منتقل ہوئے۔اب مسئلہ ننھے بچے کی پرورش کا تھا اور اس وقت شیرازہ کے دل و دماغ میں اپنی چہیتی بہن سمرن کا خیال آیا اور اس نے سمرن کو فون کیا اور کہا:
"سمرن۔۔۔۔۔ میری پیاری بہن ۔۔۔تمہں معلوم ہے کہ ہم دونوں کا تبادلہ ہوا ہے ۔۔یونیورسٹی کی بھی چھٹیاں چل رہی ہیں ۔میں چاہتی ہوں کہ تم چند دن یہاں آکر تب تک میرے بچے کی پرورش کا خیال رکھو جب تک میں کسی نوکرانی کا انتظام کر لوں گی ”
"ٹھیک ہے دیدی ۔۔۔۔۔۔۔جیسے آپ کی مرضی۔۔ میں کل ہی شہر آنے کا پروگرام بناتی ہوں” سمرن کے جواب میں اختصار تھا ۔
سمرن مجبور تھی ۔وہ کسی بھی صورت میں اپنی بہن کو انکار نہیں کر سکتی تھی ۔
اگلے دن علی الصبح سمرن نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور دوپہر تک اپنی بہن کے گھر وارد ہوئی۔وہ اپنے بہنوئی سے آنکھیں ملانے سے قاصر تھی حالانکہ شیرازہ ،جاوید اور سمرن کے عشق کے داستان سے بالکل ناآشنا تھیں۔سمرن کو اپنے بھانجے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی ۔شیراز صبح تڑ کے ہی اپنے آفس کا رخ کرتی اور سمرن اپنے ننھے سے بھانجے کے ساتھ اپنے دل کو لبھاتی تھی۔
جاوید نے اپنی بیوی کی غیر حاضری میں سمرن پر پھر سے ڈورے ڈالنے شروع کیے ۔اس کو اپنے ماضی کے وہ حسین دن یاد آرہے تھے جب وہ سمرن کے عشق میں گرفتار تھا۔وہ سمرن سے بے انتہا محبت کرتا تھا لیکن دلدوز سڑک حادثے نےان کے محبت کے بیچ ایک ایسی دراڑ پیدا کر دی تھی جو بعد میں ان کی جدائی کا سبب بنی۔سمرن کو دیکھتے ہی جاوید کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ۔ایک دن جاوید کے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا اور اس نے سیدھے کچن کا رخ کیا،سمرن کو اپنے باہوں میں بھینچ لیا اور بے انتہا پیار کرنے لگا۔ سمرن سٹپٹا گئی لیکن جاوید کی ضد کے سامنے آخر اس نے اپنی ہار کو تسلیم کرنا ہی مناسب سمجھا۔اس کے دل میں بھی شاید جاوید کے محبت کی تھوڑی سی چنگاری سلگ رہی تھی۔
جاوید اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ سمرن کبھی ماں نہیں بن سکتی اس لیے دونوں کے درمیان شیرازہ کے در پردہ ایک گھناؤنے رشتے کا آغاز ہوا۔ سمرن شیرازہ کی غیر حاضری میں اپنے بہنوئی کے ساتھ رنگ رلیاں منانے لگی ۔یہ سلسلہ ایک ماہ تک جاری رہا اور بالآخر یونیورسٹی کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی سمرن نے جاوید اور شیرازہ کو خیر آباد کہا۔
سمرن نے کالج جوائن کیا اور چند دن بعد اس کی منگنی عرفان سے طے ہو ئی۔عرفان ایک سیدھا سادہ نوجوان تھا حالانکہ وہ سرکاری ملازم تو نہ تھا لیکن ایک اچھی خاصی پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کر رہا تھا۔
منگنی کو چھ ماہ گزر چکے تھے کہ اچانک ایک دن سمرن کی طبیعت بگڑ گئی ۔سمرن نے ہسپتال کا رخ کیا اور اپنی روداد ڈاکٹر صاحب کو سنانے لگی ۔ڈاکٹر صاحب نے باریکی سے معائنہ کرنے کے بعد سمرن سے مخاطب ہو کر کہا :
"سمرن جی مبارک ہو ۔آپ ماں بننے والی ہیں”
ڈاکٹر کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی سمرن کانپ گئی اور اس پر سکتہ طاری ہوا ۔سمرن بہت گھبرائی ہوئی تھی اس کو پورا یقین تھا کہ وہ ماں بننے کی اہلیت کھو چکی تھی لیکن کارگاہ الٰہی کے فیصلوں سے بھلا انسان کیسے آشنا ہو سکتا ہے؟وہ چھ ماہ کی حاملہ تھیں۔ سمرن بوجھل قدموں کے ساتھ ہسپتال سے نکلی اور نمناک آنکھوں سے اپنے بہنوئی کو فون کیا اور اس کو اپنی حاملہ ہونے والی بات سے آگاہ کیا۔
"دیکھو سمرن۔۔ جو ہونا تھا، ہو گیا۔۔۔گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔میں تم سے شادی کر لوں گا۔دین اسلام نے مجھے دو بیویاں رکھنے کی پوری آزادی دی ہے۔ میں تم دونوں بہنوں کو اپنی بیویاں بنانا پسند کروں گا”جاوید کی لہجے میں سنجیدگی تھی ۔
سمرن جاوید کا بے تکا جواب سن کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔وہ کسی بھی حالت میں اپنی بہن کا گھر اجاڑنا نہیں چاہتی تھی۔وہ جاوید کے بچے کی ماں بننے والی تھی اور جاوید نے ایک غیر ذمہ دارانہ شخصیت کا ثبوت فراہم کیا تھا اور آج سمرن ایک بار پھر جاوید کی بے وفائی کے سامنے بے یار و مددگار نظر آرہی تھیں۔
سمرن نے سیدھے اپنے کمرے کا رخ کیا اور زار و قطار رونے لگی ۔اس کی منگنی ہو چکی تھی اور عرفان تک اس بات کی بھنک لگنا ان کے رشتے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر سکتا تھا۔اس مصیبت کی گھڑی میں سمرن نے اپنی سہیلی نظرانہ کو فون کر کے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ سمرن رو رو کر اپنی کرتوت اپنی سہیلی کو سنا رہی تھی اور نظرانہ یہ سب سن کر پریشان ہو رہی تھی ۔
نظرانہ نے اپنی پیاری سہیلی سمرن کو تسلی دی اور فون رکھتے ہی اپنے منگیتر آصف سے مدد طلب کی ۔
آصف پیشے سے ایک ڈاکٹر تھا۔نظرانہ کی منت سماجت کے بعد آصف نے اسقاط حمل کا مشورہ دیاجس کے لیے کچھ پیسوں کا بندوبست کرنا لازمی تھا اور یہ ایک پرخطر عمل تھا جس سے سمرن کو اپنی جان کی بازی بھی لگانی پڑ سکتی تھی ۔
سمرن اپنی سونے کی چین بیچ کر اسقاط حمل کے لیے تیار ہو گئی اور نظرانہ کے ہمراہ آصف کے ایک دوست اشرف کے گھر چلی گئی ۔آصف نے نظرانہ کے محبت کی خاطر اپنے پیشے سے بے ایمانی کی اور سمرن کا حمل گرانے میں کامیاب رہا۔رات اشرف کے گھر پر ہی بسر ہوئی ۔
اگلے دن صبح سویرے سمرن اشرف اور آصف کے ہمراہ اپنے شہر کے کرائے والے کمرے کی جانب چل پڑی۔تھوڑی مسافت طے کرتے ہی سمرن نے آصف کو گاڑی روکنے کے لیے کہا ۔اس کا کوئی دوست اس کا منتظر تھا ،جس کو سمرن کے ہمراہ شہر جانا تھا ۔
آصف نے گاڑی روک لی اور ایک نوجوان پچھلی سیٹ پر براجمان ہوا۔نوجوان نے کسی سے کوئی بات نہیں کی ۔گاڑی اپنا فاصلہ طے کر رہی تھی کہ اچانک شاہراہ پر تعینات پولیس کی ایک ٹیم نے گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔آصف نے گاڑی روکی اور زیرلب پولیس کے خلاف کچھ ناشائستہ الفاظ بڑبڑائے ۔سمرن نے تیخے لہجے میں آصف سے مخاطب ہو کر کہا:
"آصف صاحب۔۔۔پولیس والوں کے خلاف کچھ بھی الٹا سیدھا مت بولیے ۔میرے ابو بھی پولیس میں تھے مجھ سے قطعی اپنے ابو کی بےعزتی برداشت نہیں ہوگی ”
آصف تلملا گیا۔آصف نے تلخ لہجے میں جواب دیا :
"سمرن اگر تم کو اپنی ابو کی عزت کا اتنا ہی خیال ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچ پاتی ”
یہ ساری باتیں سمرن کے دوست کی سمجھ سے پرے تھیں ۔
آصف نے غصے پر قابو پا کر اپنا سفر جاری رکھا اور ایک آدھ گھنٹے میں شہر پہنچ گئے ۔آصف نے گاڑی کو روکا ۔سمرن اپنے دوست کے ہمراہ اپنے کرائے کے مکان کی جانب چل پڑی اور آصف کو انتظار کرنے کے لیے کہا ۔
تھوڑی مدت میں سمرن کا دوست واپس لوٹ آیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔آصف نے گاڑی اسٹارٹ کی۔اشرف جو کہ آگے والی سیٹ پر براجمان تھا، نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہا:
"ارے بھائی کون ہو آپ؟ راستے میں بھی آپ نے کوئی بات نہیں کی۔۔۔ بڑے پریشان لگ رہے ہو ”
"جناب میرا نام عرفان ہے ۔میں سمرن کا منگیتر ہوں ۔میری اس پریشانی کا سبب سمرن ہے ۔بیچاری جب سے کانپور سے واپس لوٹ کر آئی ہیں تب سے ان کی طبیعت آئے دن خراب ہی رہتی ہے ۔بس کسی طرح سے سمرن کی صحت بحال ہو جائے ۔یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ اتنی سیدھی سادھی اور شریف لڑکی سے واسطہ پڑا ہے ۔ورنہ آج کل کی لڑکیوں کا خدا ہی حافظ ہے ۔۔۔”
آصف اور اشرف چونک گئے۔وہ ایک دوسرے کی طرف حیران کن نظروں سے دیکھنے لگے۔اس کے بعد تینوں نے واپسی میں ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔!!