
لکشمی پوری
پہلگام میں پاکستان کے زیر سرپرستی انجام دیے گئے دہشت گردانہ فعل پر ہندوستان کا ردعمل ، یعنی آپریشن سندور، جو اب بھی جاری ہے ، ملک کے انسداد دہشت گردی اور فوجی نظریے اور انداز میں ایک زبردست تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پرجوش تقریر میں ، جس کی بازگشت پورے ہندوستان میں اور دنیا بھر کی دارالحکومتوں میں سنائی دی، اعلان کیا کہ سرحد پار دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کے خلاف فیصلہ کن فوجی کارروائی کا ایک نیا معمول قائم ہو گیا ہے۔
دہشت گردوں کو پناہ دینے، سرمایہ فراہم کرنے اور دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو پروان چڑھانے والا کوئی بھی ملک، جو دہشت گردی کو اپنے فوجی دستوں کے ساتھ مربوط کرتا ہے اور بے گناہ شہریوں کے خلاف وحشیانہ حملوں کے لیے ہندوستان کو نشانہ بناتا ہے، اسے فوری، تعزیری اور انتقامی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ متوازن اور منصوبہ بند فوجی کارروائیاں نہ صرف پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر بلکہ بین الاقوامی سرحد کے پار بھی پاکستان کے صوبہ پنجاب کے قلب میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو ختم کر دیں گی، قطع نظر اس کے کہ ریاست کے زیر سرپرستی دہشت گردی کے مراکز سرکاری سلامتی ڈھانچے سے کتنا ہی مربوط کیوں نہ ہوں۔
آپریشن سندور کا نظریہ، جس کی جڑیں ہندوستان کی خودمختاری اور تہذیبی اخلاقیات کو برقرار رکھنے سے وابستہ ہیں، اس کا مقصد ملک کی علاقائی سالمیت کی حفاظت کرنا، اندرونی اتحاد، ہم آہنگی اور امن کو یقینی بنانا ، اور ہندوستان کو 2047 تک وکست بھارت بننے کے لیے تیز رفتار اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ اس آپریشن کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ یہ آپریشن سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے خلاف صفر برداشت کے موقف کی توثیق کرتا ہے اور ہندوستان سے اس کے سلامتی مفادات کے دفاع میں فیصلہ کن کارروائی کرنے کا عہد کرتا ہے ۔
اس سلسلے میں وزیراعظم مودی کا نظریہ بالکل واضح ہے۔ بھارت کے خلاف کسی بھی طرح کی دہشت گردانہ کارروائی جنگ کی کارروائی سمجھی جائے گی-اب کوئی گنجائش نہیں ، کسی دوسرے طریقے سے جنگ نہیں لڑی جائے گی، دہشت گردی کے ذریعہ خونریزی کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آپریشن کے بعد وزیراعظم کا قوم اور عالمی برادری سے خطاب کامیابی کے اقرار سے کہیں بڑھ کر تھا۔ بدھ پورنیما کے مقدس موقع پر دیے گئے اس پیغام نے ایک نئے تزویراتی اصول کی رونمائی کی ، جوکہ مضبوط، باوقار، اور ہندوستان کی تہذیبی اقدار پر مبنی ہے۔
اس تقریر نے ایک سادہ لیکن مضبوط پیغام دیا: بھارت امن میں یقین رکھتا ہے، لیکن اس امن کو قوت کی حمایت حاصل ہونی چاہئے۔ وزیر اعظم مودی کے سندور نظریے کے قلب میں تین واضح اور ناقابل سمجھوتہ اصول ہیں۔ پہلا، بھارت ان لوگوں کے ساتھ بات چیت میں شامل نہیں ہوگا جو دہشت گری کو فروغ دیتے ہیں؛ جب بھی بات چیت ہوگی، دو طرفہ ہوگی اور اس میں دہشت گردی اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کے موضوع پر ہی گفتگو ہوگی۔ دوسرا، ہندوستان دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے، اور اس طرح تجارت اور قومی وقار کے درمیان ایک مضبوط لکیر کھینچتا ہے۔ آخری اصول، بھارت مزید نیوکلیائی دھمکیوں کو برداشت نہیں کرے گا—آپریشن سندور نے فیصلہ کن طور پر کسی بھی شک و شبہ کو ختم کر دیا ہے کہ نیوکلیائی دھمکیاں دہشت گردی کی کارروائیوں کو بچا سکتی ہیں۔
آپریشن کا نام "سندور” رکھا گیا جس میں گہری ثقافتی علامت مضمر ہے۔ سندور – جو کہ شادی شدہ ہندو خواتین کے ذریعہ لگایا جانے والا سرخ ٹیکہ ہے- کو مظلومیت کے استعارے کے طور پر نہیں بلکہ مقدس فرض اور قومی فخر کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ۔ دہشت گردوں نے اس وقار کو پامال کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے جواب دیا۔ ذاتی معاملہ سیاسی بنا، اور ثقافت نے حکمت عملی کی شکل اختیار کی۔ نیز، چونکہ یہ دہشت گردانہ حملہ کشمیر میں ہوا، جو کہ بھارت ماتا کی جغرافیائی اور استعاراتی پیشانی ہے، آپریشن سندور کا مقصد اس کی حفاظت کرنا اور سلام پیش کرنا ہے۔ ہندوستان کا ردعمل نظریاتی سلسلے کے عین مطابق ہے۔
کوٹلیہ کی معاشیات سے لے کر 1980 کی دہائی کے اندرا گاندھی کے نظریے تک، پھر 1998 میں پوکھرن – II آزمائش کے توسط سے واجپئی کا بے باک نیوکلیائی مظاہرہ- جس نے عالمی دباؤ اور پابندیوں کے باوجود اپنے دفاع کے ہندوستان کے حقِ خودمختاری کی توثیق کی، اور معتبر کم از کم سدراہ کی پالیسی قائم کی۔ اس سلسلے کی اگلی کڑی مودی کا نظریہ ہے جس کے تحت اُری اور بالاکوٹ میں کارروائیاں انجام دی گئیں۔ بھارت کے فن حکمرانی نے طویل عرصے سے بحران کے وقت اور قومی سلامتی سے متعلق اہم معاملات میں خود مختار فیصلہ سازی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
سندور نظریہ اس سلسلے کو آگے بڑھاتا ہے، جسے ایک پراعتماد ہندوستان کی حمایت حاصل ہے جو اپنے بنیادی مفادات ، سلامتی اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے دفاع میں کھل کر اور مضبوط طریقے سے کارروائی کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ارضیاتی سیاسی لحاظ سے ، اس آپریشن نے علاقائی توقعات کی ازسر نو ترتیب بندی کی ہے۔ پاکستان جو کہ نیوکلیائی ہتھیاروں کو دہشت گردی کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا عادی ہے، اس کا براہ راست سامنا کیا گیا ہے۔اور اس طرح یہ ڈھال جسے وہ اب تک استعمال کرتا رہا، ٹوٹ چکی ہے۔
چین، اگرچہ رسمی طور پر غیر جانبدار ہے، تاہم اسے اپنے اتحادی کی کمزوری کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اور امریکہ سے لے کر روس تک، عالمی طاقتیں بھارت کو بیرونی اشارے یا توثیق کا انتظار کیے بغیر کارروائی دیکھ رہی ہیں۔ دوسرے ہمسایوں کو اب اپنی بد نیتی اور بھارت مخالف اقدامات کے نتائج پر غور کرنا ہوگا۔
گذشتہ 11 برسوں میں، ہندوستان نے مختلف خطوں اور بڑی طاقتوں کے ساتھ باہمی تزویراتی شراکت داری کا ایک گھنا اور گہرا نیٹ ورک کامیابی کے ساتھ بنایا ہے۔ اس نے بڑے اور چھوٹے عالمی پلیٹ فارموں، علاقائی اور بین علاقائی تعاون کے انتظامات میں حصہ لیا ہے اور ملک آزاد تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے۔ آپریشن سندور کے دوران بڑی طاقتوں کے ساتھ بھارت کے تزویراتی اور دفاعی تعلقات اور شراکت داریاں آزمائش سے گزری ہیں۔
یہ بات اطمینان بخش تھی کہ پہلگام کے بعد ہمارے شراکت داروں کی جانب سے دہشت گردانہ حملوں کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی۔ تاہم، آپریشن سندور کے جواب میں پاکستان کی جانب سے عسکری تناؤ میں اضافہ ہونے پر جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ شراکت ردعمل اس بات سے متاثر تھے کہ اس فوجی تنازعے میں ہمسایہ ملک کے ہتھیاروں کے نظام نے کس طرح کارکردگی کا مظاہرہ کیا یا وہ ناکام رہے ۔ اب یہاں سے جب ہم آگے بڑھیں گے، تو ہمیں نہ صرف اپنے کلیدی شراکت داروں کا انتخاب احتیاط سے کرنا ہوگا بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ان شراکت داریوں میں سندور نظریے کو بھی جگہ ملے۔
اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کے دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کریں اور دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر ترک کریں، اور پاکستانی دہشت گردوں کے فوجی ڈھانچے کے خلاف کارروائی کے لیے ہمیں فوجی طاقت کا استعمال کرنے کی صورت میں، انہیں ہمارے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔ شرپسندوں کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں، کوئی بچاؤ نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان جس دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بناتا ہے وہ نہ صرف ہندوستان کے لیے خطرہ ہے بلکہ جمہوریت کے گڑھ اور عالمی اقتصادی ترقی اور نمو کے انجن کے طور پر اس کے کردار کے لیے بھی خطرہ ہے۔
دہشت گردی پاکستان سے عالمی سطح پر یورپ، برطانیہ، امریکہ اور اس سے باہر برآمد کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود، بین الاقوامی برادری کا ایک بڑا حصہ اسے نظرانداز کرتا ہے، یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے نامزد کردہ دہشت گرد گروپ دہشت گردوں کی پناہ گاہ – جو پاکستان تھا اور رہے گا – میں کھلے عام مصروف عمل ہیں ۔ آپریشن سندور0.1 کے دوران، پاکستان وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نے عوامی طور پر اتنا ہی اعتراف کیا۔ دہشت گردی کے اس متعدد منھ والے عفریت کے خلاف کارروائی کرکے ہندوستان نے عالمی خدمت انجام دی ہے۔
بھارت بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کے سورما کے طور پر کھڑا ہے۔ دنیا کو بیدار ہونا چاہیے اور دہشت گردی کے مرتکب اور اس کے خلاف کام کرنے والوں کے درمیان اخلاقی مساوات پیدا کرنا بند کرنا چاہیے- خواہ ان کے قلیل مدتی، نظریاتی تحفظات کچھ بھی ہوں۔ سندور نظریے کی معاشی جہت بھی اہمیت کی حامل ہے۔ "دہشت گردی کے ساتھ تجارت نہیں” کا واضح پیغام دے کر ہندوستان نے قومی سلامتی کے لیے اقتصادی وسائل کو برئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔
تجارت کی معطلی اور سندھ آبی معاہدہ جیسے معاہدوں سے معاشی تعلقات کو قومی سلامتی کے مقاصد کے ساتھ مضبوطی سے ہم آہنگ کرنے کے ہندوستان کے عزم کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ اقدامات ایک واضح پیغام دیتے ہیں: اقتصادی تعلق دہشت گردی کے خاتمے سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں قائم کیا جانا چاہئے۔
خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، یہ ایک اہم پیغام ہے۔ ایک طاقتور صنفی بیانیہ آپریشن کے پیغام کو تقویت بہم پہنچاتا ہے اور اسے روشنی میں رکھتا ہے: وہ ہے ہندوستان کے قومی سلامتی کے فریم ورک میں خواتین کا کردار۔ آپریشن کے بعد نمایاں طور پر بریفنگ کی قیادت کرنے والی دو خواتین افسران ہندوستان کے دفاعی منظر نامے میں خواتین کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی علامت ہیں۔ "ناری شکتی” (خواتین کی اختیار دہی) کے اس لمحے نے خواتین کے لیے ہندوستان کے تہذیبی احترام کو تقویت بخشی، جس کی بازگشت رانی لکشمی بائی سے لے کر ہم عصر خواتین فوجی قائدین تک کی تاریخی مثالوں میں گونجتی ہے، اور اس طرح اس نے قومی فخر کو صنفی شمولیت کے ساتھ مربوط کیا ہے۔
اندرونِ ملک اختراعات سے ہندوستان کی فوجی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ چند غیر ملکی نظام استعمال کیے گئے، تاہم دیسی میزائلوں، ڈرونز، اور نگرانی کے پلیٹ فارموں کی کامیاب تعیناتی دفاع میں آتم نربھرتا کی آپریشنل پختگی کو نمایاں کرتی ہے۔ اس سے برآمدات پر ہمارے اصرار اور طلب میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ہم نے پاکستان کے ذریعہ استعمال کیے گئے ہتھیاروں کے خلاف ان ہتھیاروں کو آزمایا ہے جنہیں ہم نے درآمد کیا اور بھارت میں مشترکہ طور پر تیار کیا ، اور انہوں نے ہمارے صحیح فیصلے کی تصدیق کی ہے۔ آپریشن سندور نے اس امر کی وضاحت کر دی ہے کہ بھارت توثیق نہیں چاہتا بلکہ انصاف چاہتا ہے۔
بھارت کے تحمل کو اس کی کمزور نہ سمجھا جائے۔ سندور نظریہ محض رد عمل نہیں ہے؛ یہ نظریاتی وضاحت کا ایک فعال دعویٰ ہے۔ ہندوستان کے لوگوں خصوصاً اس کی خواتین کی زندگی، عزت، بھلائی اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ ملک ہے جہاں قومی سلامتی قومی اعزاز سے مربوط ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں قدیم اقدار جدید طاقت سے مربوط ہیں۔
مصنف اقوام متحدہ کی سابق اسسٹنٹ سکریٹری جنرل، اقوام متحدہ خواتین کی ڈپٹی اگزیکیوٹیو ڈائرکٹر؛ اور بھارت کی سابق سفیر ہیں